نعیم صدیقی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1916ء چکوال |
وفات | 25 ستمبر 2002ء (85–86 سال) لاہور |
شہریت | پاکستان |
جماعت | جماعت اسلامی پاکستان |
عملی زندگی | |
استاذ | ابو الاعلی مودودی ، امین احسن اصلاحی |
پیشہ | سیاست دان |
مادری زبان | اردو |
پیشہ ورانہ زبان | عربی ، فارسی ، اردو |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
محسنِ انسانیت کی تصنیف سے عالم گیر شہرت پانے والے مولانا نعیم صدیقی کا اصل نام فضل الرحمن تھا۔
مولانا نعیم صدیقی4جون 1916ء کوخطہ پوٹھوہارکی مردم خیز دھرتی ،چکوال کے گاؤں خانپور میں پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم قاضی سراج الدین کی نگرانی میں حاصل کرنے کے بعد قریب ہی کے ایک مدرسے سے فارسی میں سند فضیلت حاصل کی۔ پھر منشی فاضل کا امتحان پاس کرنے کے بعد جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی اور سیدابوالاعلیٰ مودودی سے کسبِ فیض کیا۔ تحریر و تقریر ہر دو میدانوں میں آپ نمایاں مقام رکھتے تھے۔ آپ کی شاعری حُسن و جمال کا مرقع اور پاکیزگی و سلامت روی کا اعلیٰ نمونہ تھی۔1994میں جماعت اسلامی سے الگ ہوئے اور اپنی ساتھیوں کے ساتھ ملکر تحریک اسلامی کے نام سے ایک اسلامی انقلابی جماعت بناٸ جو پاکستان میں اسلامی انقلاب کی جدوجہد کررہی ہے۔تحریک اسلامی کا ہیڈ کوارٹر کراچی میں ہے۔
آپ کی صحافتی زندگی کا آغاز ملک نصر اللہ خاں عزیز کے اخبار ’’مسلمان‘‘سے ہوا۔ ہفت روزہ ایشیا، ترجمان القرآن، چراغِ راہ، شہاب، سیارہ میں ادارتی خدمات سر انجام دینے کے علاوہ روزنامہ تسنیم لاہور، قاصد لاہور اور جسارت کراچی اور ہفت روزہ تکبیر کراچی میں کالم نویسی اور مضمون نگاری کرتے رہے۔ تحریک ادب اسلامی کی ابتدا 1942ء میں آپ کی ادارت میں نکلنے والے ماہنامہ ’’ چراغ راہ‘‘ کراچی سے ہوئی۔
آپ 20سے زائد کتابوں کے مصنف تھے۔ جن میں
نعیم صدیقی حرکت وعمل سے بھرپور ایک طویل اور انتہائی سادہ اور کفایت شعار زندگی گزارتے ہوئے تقریباً اٹھاسی سال کی عمر میں 25 ستمبر 2002ء کو اس دارفانی سے کوچ کر گئے۔ حال ہی میں ادارہ معارف اسلامی منصورہ نے آپ کی خدمات کے اعتراف میں حیات و خدمات کے نام سے ایک مجموعہ شائع کیا ہے جس میں آپ کی حیات و خدمات پر تقریباً 28 مضامین، متعدد نظمیں، آپ کی اپنی تحریریں، خطوط، کچھ نثری مضامین، انٹرویو اور ان پر بعض نظمیں بھی شامل ہیں جو آپ کی زندگی کے بیش تر پہلوؤں اور ان کی مختلف حیثیتوں (ادیب، شاعر، مقرر، صحافی، مفکر وغیرہ) کو سامنے لاتی ہیں اور اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا اسلوبِ نظم و نثر کیا تھا، ان کے علمی منصوبے کتنے اُونچے پائے کے تھے، اسی طرح یہ کہ ادبیاتِ اُردو میں ان کی تخلیقات کس طرح منفرد حیثیت رکھتی ہیں۔