نقی علی خان | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1830ء بریلی |
تاریخ وفات | سنہ 1880ء (49–50 سال)[1] |
شہریت | مغلیہ سلطنت |
مذہب | اسلام |
زوجہ | حسینی خانم |
اولاد | احمد رضا خان [2]، حسن رضا خان |
والد | رضا علی خان |
عملی زندگی | |
استاذ | شاہ آل رسول مارہروی ، رضا علی خان |
تلمیذ خاص | احمد رضا خان ، حسن رضا خان |
پیشہ | مصنف |
پیشہ ورانہ زبان | اردو ، فارسی |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | جنگ آزادی ہند 1857ء |
درستی - ترمیم |
سلسلہ مضامین |
بریلوی تحریک |
---|
|
ادارے بھارت
پاکستان
مملکت متحدہ |
مولانا نقی علی خان مفتی رضا علی خان کے بیٹے اور امام احمد رضا خان کے والد ہیں۔ بریلی بھارت میں 1246ھ بمطابق 1830ء میں پیدا ہوئے۔ آپ نے جملہ علوم و فنون کی تعلیم اپنے والد ماجد ہی سے حاصل کی۔ نقی علی خان علم و عمل کا بحر زخار تھے۔ آپ کی ذات مرجع خلائق و علما تھی۔ آپ کی آرا و اقوال کو علمائے عصر ترجیح دیتے تھے مختلف علوم میں آپ کی تصنیفات مطبوعہ و غیر مطبوعہ موجود ہیں۔[3][4]
مولانا نقی علی کا نسلی علاقہ افغانیوں کا معروف قبیلہ بڑیچ ہے۔ اس قبیلے کے لوگ اپنا نسب قیس عبدالرشید تک پہنچاتے ہیں جن کے بارے بعض تاریخی روایات سے ثابت کیا جاتا ہے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ملے تھے اور اسلام قبول کیا تھا، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہی نے آپ کے نام قیس کے ساتھ عبد الرشید کا اضافہ کیا۔ اور ملک کا خطاب دیا تھا۔ اور دعا دی تھی کہ تمھاری اولاد دین کو مستحکم کرے گئی۔[5] نقی علی خان کا نسب 16 واسطوں سے قیس عبد الرشید سے جا ملتا ہے۔ نقی علی خان کے پردادا کے دادا شجاعت جنگ محمد سعید اللہ خان نادر شاہ کے ساتھ ہندستان آئے۔ اور یہاں ہی سکونت اختیار کرلی۔ بادشاہ محمد شاہ نے لاہور کا شیش محل آپ کو بطور جاگیر عطا کیا۔ اور آپکو منصب شش ہزاری ملا، شجاعت جنگ کا خطاب بھی بادشاہ محمد شاہ نے دیا۔[6] یہ سلسلہ باقی اجداد تک بھی چلتا رہا، بعد میں خاندان کے جد نے دنیا ترک اور دین کی خدمت شروع کر دی، آپ کے والد مفتی رضا علی خان نے ہندستان میں پہلا دارالافتاء قائم کیا، عربی زبان میں خطبات علمی جو آج بھی سارے پاک و ہند اور بنگلہ دیش میں دیو بندی و سنی علما عیدیں و جمعہ کو پڑھتے ہیں آپ کے ہی لکھے ہوئے ہیں۔[7]
رضا علی خان | |||||||||||||||||||||||||||||||||
پہلی شادی | دوسری شادی | ||||||||||||||||||||||||||||||||
(دختر) زوجہ مہدی علی | نقی علی خان | مستجاب بیگم | ببی جان | ||||||||||||||||||||||||||||||
احمد رضا خان | حسن رضا خان | ||||||||||||||||||||||||||||||||
حامد رضا خان | مصطفٰی رضا خان | ||||||||||||||||||||||||||||||||
ابراہیم رضا خان | |||||||||||||||||||||||||||||||||
اختر رضا خان | |||||||||||||||||||||||||||||||||
عسجد رضا خان | |||||||||||||||||||||||||||||||||
آپ نے دینی تعلیم گھر پر ہی اپنے والد مفتی رضا علی خان سے حاصل کی۔ جو خود بہت بڑے عالم دین تھے انھوں نے ہی ہندستان میں پہلا باقاعدہ دارلافتاء قائم کیا تھا۔ مولانا نقی علی تینتالیس علوم و فنون کے علاوہ منطق و فلسفہ کے ماہر تھے۔ آپ کا مطالعہ نہایت وسیع تھا۔[8]
مولانا کا نکاح مرزا اسفند یار بیگ لکھنوی کی دختر حسینی خانم کے ساتھ ہوا تھا، اسفند یار بریلی میں سکونت اختیار کر چکے تھے۔ مولانا نقی علی کی ان سے مندرجہ ذیل اولاد ہوئی۔
مولانا نقی علی افغان قبیلے بڑیچ سے تعلق رکھتے تھے۔ افغانی موی الجثہ ہوتے ہیں۔ مولانا میں یہ خوبیاں موجود تھیں۔ آپ دراز قد اور مضبوط جسم کے مالک تھے۔گول نورانی چہرہ، کشادہ پیشانی، بڑی بڑی خوبصورت آنکھیں جن سے مہر و محبت عیاں، علم و فضل اور عشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے معمور چوڑا سینہ، ستواں ناک، گورا چٹا رنگ۔ چہرہ پر گھنی داڑھی جو آخر عمر میں کچھ سفید ہو گئی تھی۔ باریک ہونٹ جن پر مسکراہٹ رہتی۔[10]
مولانا نقی علی زبردست عالم، مفتی ءوقت، فقہیہ عصر، پابند شرع اور عابد شب بیدار تھے۔ پرہیز گار اور خداپرستی میں اپنی مثال آپ تھے۔ ہر وقت باوضو رہتے، نماز باجماعت کے پابند تھے اور قلب درود شریف کا ذاکر۔ روزے کثرت سے رکھتے۔ آپ کی زندگی کا ہرشعبہ اتباع سنت کے انوار سے منور تھا۔ طبعیت ناساز ہوتی تب بھی مسجد میں نماز با جماعت ادا کرتے کثرت سے نفلی اعمال کرنے والے تھے۔
آپ کف اخلاق و عادات بہت عمدہ تھے۔ پوری زندگی عشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اتباع سنت میں گذری۔ اپنی ذات کے لیے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا۔ سلام میں سبقت کرتے، غرباء و مساکین کی امداد کرتے۔ بہت خوش مزاج و با اخلاق تھے۔ غرور و تکبر سے کوسوں دور، خدمت دین ہی ان کا مشغلہ تھا۔[11]
جید عالم اور معروف مفتی وقت ہونے کے ساتھ ساتھ جلیل القدر مجاہد آزادی بھی تھے۔ آپ تمام عمر انگریز سامراجیت کے خلاف بر سر پیکار رہے۔ آپ ایک بہتریں جنگ جو اور بیباک سپاہی تھے۔ لارڈ ہسٹنگ آپ کا نام سن کر کانپتا تھا۔ جنرل ہڈسن نے آپ کا سر قلم کرنے کا انعام پانچ سو روپیہ مقرر کیا۔ مگر اپنے مقصد میں ناکام رہا۔ آپ کے احاطے سے انگریزوں نے گھوڑے چوری کر لیے تھے، کیونکہ آپ نے گھوڑے مجاہدین کے لیے وقف کیے ہوئے تھے۔[12]
آپ کی آبائی جائداد موضع تحصیل ملک ضلع رامپور کے نزدیک تھی، انگریزوں نے جنگ میں حصہ لینے کی وجہ سے آپ کی تمام جائداد نواب رامپور کو بطور انعام دے دی کیونکہ اس نے جنگ میں انگریزوں کی مدد کی تھی۔
مولانا نقی علی خان 1295ھ کو حج و زیارت کے لیے روانہ ہوئے۔ یہ وہ دور تھا کہ مولانا شدت سے علیل تھے اور ضعیف انتہا کو تھا۔ عرض کی گئی کہ ایک سال کے لیے حج ملتوی کر دیں مگر آپ نے انکار کر دیا۔ مولانا حج و زیارت کے سلسلے میں مکہمعظمہ اور مدینہ منورہ میں تقریباً" تین ماہ مقیم رئے۔ حج میں آپ کے معلم احمد سیونی بن محمد سیونی مکی تھے۔[13]
مفتی رضا علی خان نے 1831ء میں ہندوستان میں پہلا باقاعدہ دارالافتاء قائم کیا۔ اور چونتیس سال تک فتوی دیا۔ اس کے بعد مولانا نقی علی خان نے مسند افتاء کی ذمہ داری لی اور آخر عمر تک فتوی نویسی کا کام کیا۔ آپ کے پاس کثرت سے سوال آتے، جو ملک و بیرون ملک سے ہوتے۔ مفتی حافظ بخش آنولوی لکھتے ہیں
” | مولوی صاحب ممدوح (مولانا نقی علی خان) کو کسی کی تکفیر مشتہر کرنے سے کیا غرض تھی نہ آپ کی عادت۔ مسائل جو مہر کے واسطے آتے اگر صحیح ہوتے مہر ثبت فرماتے ہیں اور جو خلاف کتاب (شریعت) ہوتے ہیں جواب علاحدہ سے لکھ دیتے ہیں کسی کی تحریر سے تعرض نہیں کرتے۔[14] | “ |
مولانا نقی علی کے عہد تک بریلی میں مختلف علما کرام انفرادی طور پر دینی و مذہبی تعلیم دیتے تھے۔ جن میں مولوی ہدایت علی فاروقی اور مولوی یعقوب علی کے نام قابل ذکر ہیں۔ اس کے بعد مولانا نقی علی خان نے مدرسہ اہل سنت کے نام سے ایک دینی مدرسہ قائم کیا۔[15] یہ 1872ء سے قبل قائم ہوا، جس کے قیام کا درست سن معلوم نہیں ہے۔ یہ اپنے وقت کا معروف اور معیاری دینی مدرسہ تھا۔
آپ کی تصنیفات کی تعداد چالیس ہے مگر صرف چھبیس کتب ہی امتداد زمانہ سے بچ سکیں۔
عنوان | موضوع | اشاعت |
---|---|---|
الکام الاوضح فی تفسیر سورہ الم نشرح | تفسیر قران، سورہ الم نشرح کی تفسیر | مکتبہ رضا بیسلپور، پیلی بھیت، بھارت |
سرور القلوب فی ذکر المحبوب | سیرت نبوی | 1867ء میں لکھی گئی، پہلی بار 1871ء میں شائع ہوئی، (368 صفحات) |
جواہر البیان فی اسرار الارکان | ارکان اسلام | صبح صادق، سیتاپور، 1881ء، صفحات 208 |
اصول الرشاد لقمع مبانی الفساد | تقویت الایمان کا رد | صبح صادق، سیتاپور، 1881ء، صفحات 104 |
ہدایت البریۃ الی شریعۃ الاحمدیہ | اصلاح معاشرہ | 1926ء، کتب خانہ سمنانی اندرکوٹ، میرٹھ، 48 صفحات |
اذاقۃ الاثام لمانعی عمل المولد و القیام | میلاد و قیام | میلاد و قیام کے نام سے پہلی بار 2015ء میں شائع ہوئی |
فضل العلم و العلما | علم و علما کی فضیلت | 1982ء، 54 صفحات |
احسن الوعا آداب الدعا | دعا کے مسائل و فوائد اور آداب | مکتبہ المدینہ، کراچی، 130 صفحات |
مولانا نقی علی خان اپنے بیٹے احمد رضا خان کے ساتھ 1294ھ کو خانقاہ برکاتیہ مارہرہ شریف حاضر ہوئے اور سید شاہ آل رسول مارہروی قادری برکاتی سے بیعت ہوئے۔ اسی وقت نقی علی و احمد رضا کو خلافت عطا کی گئی۔[16]
سید آل رسول مارہروی نے آپ کو مندرجہ ذیل اوراد و وظائف کی اجازت عطا کی تھی۔:
قرآن حکیم کے خواص، اسماء الہیہ، دلائل الخیرات، حصن حصین
قصر متین، اسماء العینہ، حزب البحر، حزب البر،
سلسلہ شاذلیہ کے تمام احزاب، ایک لاکھ چار ولیوں کا حرز، حرز الامیرین
حرز ایمانی، دعا حیدری، دعا عزرائیل، دعا مغنی
قصیدہ غوثیہ، صلاۃ غوثیہ، دعا سریانی، نیم تکبیر
تکبیر عاشقاں، قصیدہ بردہ، ارسال الہواتف[17]
آپ کو چار سلسلوں سے اجازت سند حدیث تھی۔
آپ کا وصال ذی القعدہ 1297ھ مطابق 1880 کو اکیاون برس کی عمر میں خونی اسہال کی وجہ سے ہوا۔ آپ کو مولانا رضا علی خان کے پاس دفن کیا گیا۔[19]