نوری جام تماچی

سندھ کے لوک ادب کی کہانیوں میں نوری جام تماچی کی کہانی ہے۔ جس میں علاقائی حکمران جام تماچی ایک خوبصورت عورت نوری پر عاشق ہوجاتا ہے۔[1]

سمہ دور حکومت میں مشہور حاکم ’’جام تماچی ‘‘ کے عہد میں ’’کینجھر جھیل ‘‘ کے کنارے بہت سے مچھیرے آباد تھے۔ ان مچھیروں کا رہن سہن عموماً کشتیوں ہی میں ہوتا تھا۔ مرد مچھلیاں پکڑتے تھے اور ان کی عورتیں مچھلیوں کو فروخت کرتی تھیں۔ ایک دفعہ ان مچھیروں کے یہاں ایک نہایت خوبصورت لڑکی پیدا ہوئی۔ لڑکی اتنی حسین و جمیل تھی کہ مچھیروں کی پوری آبادی اسے دیکھنے آنے لگی۔ لڑکی کی جگمگاتی اور پرنورصورت دیکھنے کے بعدبستی کے لوگوں نے فیصلہ کیا کہ اس لڑکی کا نام ’’نوری ‘‘ رکھا جائے۔ ’’نوری‘‘ جوں جوں بڑی ہوتی گئی، اس کی خوبصورتی میں اضافہ ہوتا رہا۔ وہ انتہائی حسین و جمیل تھی، اس کے حسن کے چرچے زبان زد عام تھے۔۔

ایک دن ’’جام تماچی‘‘ جسے سیر و شکار کا بہت شوق تھا، اپنی شاہی کشتی میں بیٹھ کر ’’کینجھر جھیل‘‘ کی سیر کر رہا تھا کہ اچانک اس کی نظرنوری پر پڑی اور وہ اس کے حسن سے اتنا متاثر ہواکہ واپس اپنے محل میں آ کر اسی کے بارے میں سوچنے لگا۔ اب نوری کی سادگی اس کی آنکھوں میں گھوم رہی تھی۔ جام تماچی نے فیصلہ کیا کہ وہ ’’نوری‘‘ سے شادی کرے گا۔ ذات پات کے سب بندھن اس کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ اس نے ’’نوری‘‘ کے رشتہ داروں کو اپنے محل میں طلب کیا۔ نوری کے سبھی عزیز و اقارب اس خبر کو سن کر بہت ہی خوش تھے کہ ان کا حاکم نوری سے شادی کرنا چاہتا ہے۔

’’جام تماچی ‘‘ کے حکم سے، خوشی کے شادیانے بجنے لگے۔ مچھیروں سے جو محصول لیا جاتا تھا، اسے بھی معاف کر دیا گیا۔ غریب مچھیروں کے دن پھر گئے۔ اب وہ مچھیرے عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنے لگے۔ نوری شاہی محل میں رہنے لگی۔ نوری اور جام تماچی اکثر شاہی کشتی میں بیٹھ کر کینجھر جھیل کی سیر کرتے اور اسی طرح کی سیروتفریح سے دل بہلاتے۔ شاہی محل میں جام تماچی کی دوسری رانیاں نوری کو حسد سے دیکھتیں کیونکہ نوری کی اہمیت شاہی محل میں بہت بڑھ گئی تھی۔ جام تماچی نے نوری کو مہارانی کا درجہ دے دیا تھا یعنی محل کی تمام رانیوں پر نوری کی اطاعت اور فرماں برداری لازم تھی۔ جام تماچی کو نوری کی سادگی اور معصومیت بہت پسند تھی یہی وجہ تھی کہ نوری، مہارانی کے درجے تک جا پہنچی۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی ’’سرکا موڈ‘‘ میں کہتے ہیں۔

پہلی داستان

ہزاروں عیب وابستہ ہیں مجھ سے

میں اک ملاح کی بیٹی ہوں پیارے

مجھے احساس ہے بے مائیگی کا

کہ مانند تن ماہی ہوں پیارے

کہیں ایسا نہ ہو پھر بے رخی ہو

خبر ہے تجھ کو جیسی بھی ہوں پیارے

کہاں میں اور کہاں محلوں کی رانی

میں اس زمرے میں کب آتی ہوں پیارے

کہاں ذرہ، کہاں خورشید تاباں

’’سمہ‘‘ تو اور میں ’’گندری‘‘ ہوں پیارے

٭ … ٭ … ٭

تماچی جام اور تیرے حضوری

یہ کیا اعجاز ہے اے چشم نوری

رہی باقی نہ کوئی حد فاصل

مٹا دی عشق نے ہر ایک دوری

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. "آرکائیو کاپی"۔ 08 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 فروری 2019