وارث علی شاہ | |
---|---|
معروفیت | وارث علی شاہ |
پیدائش | 1 رمضان المبارک 1817ء دیوا شریف |
وفات | 5 اپریل 1905 دیوا شریف، لکھنؤ، بھارت |
مدفن | دیوا، لکھنؤ، بھارت |
دیگر نام | مٹھن میاں، سرکار وارث پاک، حاجی صاحب، وارث بابا، حاجی سید وارث علی شاہ |
عہد | ابتدائی انیسویں صدی |
شعبۂ زندگی | بھارت |
مذہب | اسلام |
فرقہ | عشق (تصوف) |
سلسلۂ تصوف | قادریہ اور چشتیہ (رزاقیہ) |
حاجی حافظ سید وارث علی شاہ (ہندی: हाजी वारिस अली शाह) یا سرکار وارث پاک (ہندی: सरकार वारिस पाक) (1817ء-1905ء) دیوا، بارہ بنکی سے تعلق رکھنے والے ایک صوفی بزرگ اور تصوف کے وارثیہ سلسلے کے بانی تھے۔ انھوں نے زیادہ تر مغرب کا سفر طے کیا اور بہتیروں نے ان کے صوفی سلسلے میں شمولیت اختیار کی[1] ان کا مزار دیوا، بھارت میں واقع ہے۔[2][3]
ان کی ولادت 1232ھ بمطابق 1817ء کو ”دیوا شریف“ (موجودہ ضلع بارہ بنکی، اترپردیش، بھارت) میں ہوئی۔[4]
ان کے والد کا نام سید قربان علی شاہ تھا جن کا مقبرہ (مزار شریف) بھی دیوا میں واقع ہے۔[5]
نہایت چھوٹی عمر میں حاجی حافظ سید وارث علی شاہ نے مذہبی زندگی اختیار کرنا شروع کر دی اور ان کی دین کی طرف رغبت بڑھتی گئی۔ وہ لڑکپن میں حد سے زیادہ دین کی معلومات رکھتے تھے اور لوگ ان کو غیر معمولی عقل رکھنے والا بچہ کہتے تھے۔[6]
وہ حج کے لیے کئی دفعہ مکہ گئے۔[7] اپنے پورپ کے وسیع و عریض اسفار کے دوران میں انھوں نے اس وقت کے عثمانی سلطان اور برلن کے بسمارک سے ملاقات کی۔[1] انھوں نے انگلستان کا بھی سفر کیا اور ملکہ وکٹوریا سے رسمی ملاقات بھی کی۔[7]
وہ عبد الباری فرنگی محلی کے اچھے دوست تھے۔[8]
آپ کا وصال 29 محرم الحرام 1323ھ بمطابق 5 اپریل 1905ء کو ہوا۔[9]
وارث علی شاہ کا تعلق تصوف کے قادریہ اور چشتیہ مکاتب فکر سے تھا۔[10] وہ روایتی چشتیہ سلسلے میں تھے، لیکن انھوں نے مزید آزاد خیال نظریات اپنائے اور اپنے پیروکاروں کو ان کے خود کے مذہب پر قائم رہنے کی چھوٹ دی۔[1] وہ چھوٹی سی عمر میں گولہ گنج، لکھنؤ (اترپردیش، بھارت) کے ایک صوفی بزرگ سید خادم علی شاہ کے مرید ہو گئے۔ رشتے کے لحاظ سے خادم علی شاہ ان کے بہنوئی تھے۔ اور ان کی وفات تک ان کے مرید و خلیفہ رہے۔ ان کی وفات کے وقت وارث شاہ کی عمر محض سولہ برس تھی۔
حضرت حاجی وارث علی شاہ کے تصوف عشق میں فقیر وہ ہے جو جس کو اللہ تعالیٰ سے بھی کوئی حاجت نہ ہو۔ فقیر کو چاہیے کہ اللہ سے بھی نہ مانگے کیا وہ نہیں جانتا کہ جو شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے ۔ محبوب کی دی ہوئی چیزوں سے گھبرانا محبت کے خلاف ہے۔ عاشق کی آخری منزل محبوب کی ذات میں فنا ہو جانا ہے اور یہی توحید کامل ہے۔
آپ اپنے احرام پوش فقراء کو احرام عطا کرتے ہوئے تاکید فرمایا کرتے تھے کہ یہ کفن ہیں جس طرح مردے کو اسباب دنیا سے کوئی تعلق نہیں اسی ہی طرح فقیر کو چاہیے کہ دنیا اور اسباب دنیا سے کوئی سروکار نہیں رکھے۔