وزیرمحمد

وزیر محمد ٹیسٹ کیپ نمبر 14
ذاتی معلومات
پیدائش (1929-12-22) 22 دسمبر 1929 (عمر 94 برس)
جوناگڑھ, ریاست جونا گڑھ, برطانوی ہند
بلے بازیدائیں ہاتھ کا بلے باز
گیند بازیدائیں ہاتھ کا گیند باز
تعلقاتحنیف محمد (بھائی)
رئیس محمد (بھائی)
مشتاق محمد (بھائی)
صادق محمد (بھائی)
بین الاقوامی کرکٹ
قومی ٹیم
پہلا ٹیسٹ (کیپ 14)13 نومبر 1952  بمقابلہ  بھارت
آخری ٹیسٹ13 نومبر 1959  بمقابلہ  آسٹریلیا
کیریئر اعداد و شمار
مقابلہ ٹیسٹ فرسٹ کلاس
میچ 20 105
رنز بنائے 801 4,930
بیٹنگ اوسط 27.62 40.40
100s/50s 2/3 11/26
ٹاپ اسکور 189 189
گیندیں کرائیں 24 102
وکٹ 0 0
بولنگ اوسط
اننگز میں 5 وکٹ
میچ میں 10 وکٹ
بہترین بولنگ
کیچ/سٹمپ 5/– 35/–
ماخذ: کرک انفو، 12 جولائی 2019ء

وزیر محمد انگریزی:Wazir Mohammad(پیدائش: 22 دسمبر 1929ءجوناگڑھ، گجرات، بھارت) ایک پاکستانی کرکٹ کھلاڑی ہیں [1] جو پاکستان کرکٹ کی تاریخ میں منفرد مقام کے حامل محمد برادران میں سے ایک ہیں حنیف محمد عظیم بیٹسمین، مشتاق محمد عمدہ بیٹسمین اور کامیاب کپتان، صادق محمد سٹائلش اوپنر اور رئیس محمد لیکن ان میں سب سے بڑے وزیر محمد جن کو بہت کم لوگ جانتے ہیں۔

محمدن برادران کا اعزاز

[ترمیم]

وزیر محمد، حنیف محمد، مشتاق محمد، صادق محمد چار بھائیوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ پانچویں  رئیس محمدنے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی، ٹیسٹ کرکٹ کھلاڑی بننے کی منزل کے قریب پہنچے، کپتان عبد الحفیظ کاردار نے 1955ء میں انڈیا کے خلاف ڈھاکہ ٹیسٹ شروع ہونے سے ایک دن پہلے، رئیس محمد کو یہ نوید جانفزا سنائی کہ وہ کل کے ٹیسٹ میں ٹیم کا حصہ ہوں گے لیکن میچ شروع ہونے سے پہلے وہ ڈراپ کرکے بارہویں کھلاڑی بنادیے گئے۔ اس ناانصافی کی کبھی تلافی نہ ہو سکی۔حنیف محمد عظیم بیٹسمین، مشتاق محمد عمدہ بیٹسمین اور کامیاب کپتان، صادق محمد سٹائلش اوپنرتھے لیکن بھائیوں میں سب سے بڑے  وزیر محمد کا چرچا کم ہونے کی بنیادی وجہ تو یہی ہے کہ کرکٹ کے میدان میں ان کی کارکردگی چھوٹے بھائیوں کی بہ نسبت فروتر ہے۔ دوسرے وہ 45 برس سے انگلینڈ میں مقیم ہیں، اس عرصے میں کرکٹ سے متعلق کوئی ذمہ داری بھی انھیں نہیں سونپی گئی۔22 دسمبر 1929ء کو جونا گڑھ میں آنکھ کھولنے والے وزیر محمد نے پاکستان کی طرف سے 20 ٹیسٹ کھیلے۔ قومی ٹیم کی چند ابتدائی یادگار کامیابیوں میں ان کا اہم کردار رہا جس پر انھیں ناز ہے۔

اوول کی فتح میں کردار

[ترمیم]

اگست 1954ء میں پاکستان کرکٹ ٹیم نے انگلینڈ کو، اس کی سرزمین پر، اوول ٹیسٹ میں شکست دے کر دنیا کو حیران کر دیا۔ اس میچ کے اصل ہیرو صحیح معنوں میں فضل محمود تھے جنھوں نے بارہ وکٹیں حاصل کیں۔ لیکن اس جیت میں وزیر محمد کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ میزبان ٹیم پہلی اننگز میں 130 رنز بناکر ڈھیر ہو گئی تو پاکستان  نے تین رنز کی برتری کے ساتھ دوسری اننگز کا آغاز کیا۔ 82 کے سکور پر پاکستان کے آٹھ کھلاڑی پویلین لوٹ گئے۔ اس نازک صورت حال میں وزیر محمد  نے ذو الفقار احمد کے ساتھ مل کر 58 رنز جوڑے۔ اس کے بعد آخری وکٹ کی شراکت میں محمود حسین کے ساتھ مجموعی سکور میں قیمتی 24 رنز کا اضافہ کیا۔ اتفاق سے پاکستان اتنے ہی رنز سے یہ میچ جیتا۔ وزیر محمد 42 رنز بناکر ناٹ آٹ رہے۔ یہ ٹیسٹ میچ میں پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ انفرادی سکور تھا۔اس میچ میں وزیر محمد سے دو تین دفعہ کیچ بھی ڈراپ ہوا۔

وزیر! خدا کا واسطہ ہے، کیچ پکڑ لینا

[ترمیم]

اس حوالے سے مزے کا ایک قصہ پاکستانی وکٹ کیپر امتیاز احمد نے سناتے ہیں۔ ان کے بقول میچ میں ایک مرحلے پر کامپٹن  نے شاٹ کھیلا تو گیند فضا میں بلند ہوئی، فیلڈر کے پاس اسے ہاتھوں میں محفوظ کرنے کے واسطے مناسب وقت تھا، وزیر محمد کیچ پکڑنے کے لیے حرکت میں آئے تو ساتھی کھلاڑی کہنے لگے کہ وزیر! خدا کا واسطہ ہے، کیچ پکڑ لینا، ملک کی عزت کا سوال ہے۔ لیکن کیچ تو خیر وہ کیا کرتے گیند ان کے ہاتھوں میں آنے کی بجائے ماتھے سے جا ٹکرائی۔1956ء میں پاکستان نے آسٹریلیا کو پہلی دفعہ ٹیسٹ میچ ہرایا۔ کراچی میں میٹنگ وکٹ پر مہمان ٹیم پہلی اننگز میں 80 رنز بنا پائی۔ پاکستان ٹیم کے 70 پر پانچ کھلاڑی آٹ ہو گئے جس کے بعد وزیر محمد نے کپتان عبد الحفیظ کاردار کے ساتھ مل کر ٹیم کو مشکل صورت حال سے نکالا اور 67 رنز کی عمدہ اننگز کھیلی۔ حنیف محمد اور وزیر محمد کے لیے 1958ء کا دورہ ویسٹ انڈیز بہت بارآور ثابت ہوا۔ حنیف محمد نے برج ٹان ٹیسٹ میں 337 رنز کی تاریخی اننگز کھیلی جسے ٹیسٹ میچ بچانے کی عظیم ترین کوشش کہا جاتا ہے۔ اس سیریز میں پاکستان  نے پورٹ آف سپین میں میزبان ٹیم کو ایک اننگز سے شکست دی تو اس تاریخی کامیابی میں وزیر محمد کی 189 رنز کی شاندار اننگز  نے کلیدی کردار ادا کیا۔ یہ اس ٹیسٹ میچ کی اکلوتی سنچری تھی۔کنگسٹن ٹیسٹ میں بھی وہ سنچری بنانے میں کامیاب ہوئے۔ جارج ٹان ٹیسٹ میں 97رنز کے ساتھ ناٹ آٹ رہے۔ویسٹ انڈیز میں ان کی کارکردگی کے پیش نظر امید یہی تھی کہ وہ حنیف محمد کے ساتھ مزید کئی سال ٹیم کا حصہ رہیں گے لیکن افسوس ایسا نہ ہو سکا۔ وہ اپنی فارم برقرار نہ رکھ سکے اور ان کی کارکردگی کا گراف بتدریج نیچے آتا گیا۔ ویسٹ انڈیز کے دورے کے بعد چار ٹیسٹ میچ کھیل سکے۔ 1959ء میں انھوں  نے ڈھاکہ میں آسٹریلیا کے خلاف آخری ٹیسٹ کھیلا۔ 1963ء میں انھیں نوجوان کھلاڑیوں پر مشتمل انگلینڈ کا دورہ کرنے والی پاکستان ایگلٹس ٹیم کا کپتان مقرر کیا گیا۔اس دورے سے ان کی کپتانی میں کئی ایسے نوجوان کھلاڑیوں کو گروم ہونے کا موقع ملا جنھوں نے آگے چل کر کرکٹ میں نام کمایا۔ اس ٹیم میں ان کے چھوٹے بھائی مشتاق محمد اور صادق محمد بھی شامل تھے۔ صادق محمد فطری طور پر دائیں ہاتھ کے بیٹسمین تھے لیکن کرکٹ میں اپنے ابتدائی برسوں میں وزیر محمد کی ہدایت پر انھوں نے کھبے ہاتھ سے بیٹنگ شروع کردی تو ان کی کارکردگی میں خاصی بہتری آئی[2]

وزیر محمد معلومات کا خزینہ

[ترمیم]

وزیر محمد  نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ اس زمانے میں کھبے ہاتھ سے کھیلنے والے بہت کم تھے، اس لیے فرسٹ کلاس کرکٹ میں بولروں کو ایسے بیٹسمینوں کو بولنگ کرانے کا زیادہ تجربہ بھی نہیں تھا، تو اس کا فائدہ بھی صادق محمد کو ہوا۔وزیر محمد کے خیال میں ان کے بھائی رئیس محمد بھائیوں میں سب سے سٹائلش بیٹسمین تھے۔ ان کے ٹیسٹ کرکٹ کھلاڑی نہ بننے کا انھیں افسوس ہے۔حنیف محمد کے ساتھ وہ قومی ٹیم میں کھیلے۔ ڈومیسٹک کرکٹ میں ان کے کپتان رہے۔ حنیف محمد  نے 1959ء میں فرسٹ کلاس کرکٹ میں کراچی کی طرف بہاولپور کے خلاف 499 رنز بناکر ڈان بریڈمین کے 452 رنز کا ریکارڈ توڑا۔ وہ اپنی اس اننگز کا کریڈٹ وزیر محمد کو دیتے جو کراچی کی ٹیم کے کپتان تھے۔ ایک قومی اخبار کو انٹرویو میں انھوں نے بتایا، وزیر بھائی ٹیم کے کپتان تھے۔ میں نے تین سو کر لیے توکہنے لگے، تم نے بریڈ مین کا ریکارڈ توڑنا ہے۔ میں نے کہا ابھی ڈیڑھ سو باقی ہیں، یہ کیسے ہوگا؟ کہنے لگے جیسے کھیل رہے ہو تم کر لو گے، بس فٹ اور ریلکس رہو۔ مجھے فٹ رکھنے کے لیے انھوں نے میری مالش بھی کی۔حنیف محمد  نے 1959ء میں ڈان بریڈ مین کا ریکارڈ توڑا، وہ اپنی اس اننگز کا کریڈٹ وزیر محمد کو دیتے تھے وزیر محمد کرکٹ کے بارے میں معلومات کا خزینہ ہیں جس کی وجہ سے حنیف محمد کے بقول انھیں وزڈن کہا جاتا۔ حنیف محمد نے اپنی آپ بیتی میں لکھا ہے کہ وزیر محمد نئے ٹیلنٹ کے پارکھ تھے، اس لیے جب کسی باصلاحیت نوجوان کے کھیل سے متاثر ہوتے، اس کے بارے میں کراچی کرکٹ ایسوسی ایشن کے صدر مظفر حسین کو آگاہ کرتے۔ پاکستان کے ممتاز وکٹ کیپر وسیم باری کے ٹیلنٹ کو بھی سب سے پہلے انھوں نے پہچانا اور حنیف محمد اور مظفر حسین کو مطلع کیا۔

اعداد و شمار

[ترمیم]

وزیر محمد نے 20 ٹیسٹ میچوں کی 23 اننگز میں 4 دفعہ ناٹ آئوٹ رہ کر 801 رنز بنائے۔ ان کا سب سے زیادہ سکور 189 تھا۔ انھوں نے 2 سنچریاں اور 3 نصف سنچریوں کی مدد سے 27.62 کی اوسط حاصل کی جبکہ 105 فرسٹ کلاس میچوں کی 148 اننگز میں 26 بار ناٹ آئوٹ رہ کر انھوں نے 40.40 کی اوسط سے 4930 رنز سکور کیے۔ 11 سنچریاں اور 26 نصف سنچریاں بھی ان کے ریکارڈ کا حصہ ہیں[3]

سب سے عمر رسیدہ ٹیسٹ کھلاڑی

[ترمیم]

سال 1969ء میں عبد الحفیظ کاردار نے حنیف محمد پر ریٹائرمنٹ کے لیے دباو ڈالا۔ وزیر محمد اس وقت سلیکٹر تھے۔ کاردار چاہتے تھے کہ وہ حنیف محمد کو ریٹائر ہونے پر آمادہ کریں لیکن انھوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ان کے بھائی ابھی مزید تین چار سال کرکٹ کھیل سکتے ہیں۔ البتہ کاردار کی سوچ سے حنیف محمد کو وزیر محمد نے بھاری دل سے آگاہ کر دیا۔ وزیر محمد کی عمر ترانوے برس سے زائد ہو گئی ہے۔ یوں وہ پاکستان کے سب سے عمر رسیدہ ٹیسٹ کرکٹ کھلاڑی ہیں۔ اور اس وقت انگلینڈ میں ایک باوقار زندگی گزار رہے ہیں۔ فرصت کے اوقات میں باغبانی کرتے ہیں اور ٹی وی پر کرکٹ میچ دیکھتے ہیں[4]

مزید دیکھیے

[ترمیم]

حوالہ جات

[ترمیم]