ذاتی معلومات | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
مکمل نام | وسیم حسن راجا | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
پیدائش | 3 جولائی 1952 ملتان, مغربی پنجاب, ڈومنین پاکستان | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
وفات | 23 اگست 2006 مارلو، بکنگھمشائر, انگلستان | (عمر 54 سال)|||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بلے بازی | بائیں ہاتھ کا بلے باز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
گیند بازی | لیگ سپن گیند باز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
تعلقات | رمیز راجہ (بھائی) زعیم راجہ (بھائی) راجہ سلیم اختر (والد) عاطف رؤف (کزن)[1] | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بین الاقوامی کرکٹ | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
قومی ٹیم |
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
پہلا ٹیسٹ (کیپ 67) | 2 فروری 1973 بمقابلہ انگلینڈ | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
آخری ٹیسٹ | 25 جنوری 1985 بمقابلہ نیوزی لینڈ | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
پہلا ایک روزہ (کیپ 11) | 11 فروری 1973 بمقابلہ نیوزی لینڈ | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
آخری ایک روزہ | 10 مارچ 1985 بمقابلہ بھارت | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
کیریئر اعداد و شمار | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
ماخذ: ای ایس پی این کرک انفو، 4 فروری 2017 |
وسیم حسن راجا انگریزی: Wasim Hasan Raja (پیدائش: 3 جولائی 1952ء ملتان) | (وفات: 23 اگست 2006ء مارلو، بکنگھم شائر) پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی ہیں [2] انھوں نے 57 ٹیسٹ میچ میں پاکستان کی نمائندگی کی جبکہ 54 ایک روزہ بین الاقوامی میچز بھی کھیل چکے ہیں وہ قومی کرکٹ کے ایک مشہور کھلاڑی اور پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے موجودہ چیئرمین رمیز راجہ کے بھائی تھے اور دائیں ہاتھ سے گیند کرنے والے لیگ سپن بالر تھے جنھوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں 51 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ وہ گگلی بھی پھینکتے تھے اور بائیں ہاتھ سے جارحانہ بیٹنگ کرنے والے مڈل آڈر بلے باز تھے۔ انھوں نے کئی موقعوں پر پاکستان کی طرف سے اننگز کا آغاز یا اوپننگ بھی کی وسیم راجا نے پاکستان کے ساتھ ساتھ کمبائن یونیورسٹیز، درہم کائونٹی، لاہور، نیشنل بینک آف پاکستان، پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز، پنجاب، پنجاب یونیورسٹی اور سرگودھا کی طرف سے بھی کرکٹ کھیلی[3] ان کے والد راجا سلیم۔اختر ایک اعلیٰ سرکاری افسر تھے جو کمشنر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے دلچسپ۔امر یہ ہے کہ انھوں نے بھی فرسٹ کلاس کرکٹ میں حصہ لیا تھا۔
وسیم راجا بائیں ہاتھ کے شاندار اسٹروک میکر تھے، جنھوں نے مشکلات میں بھی بہترین کام کیا وہ ایک کارآمد لیگ اسپنر، جس نے بہت اہم مواقع پر پاکستان کے لیے بالنگ کا آغاز بھی کیا اور انھوں نے 100 سے زائد بین الاقوامی میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کی، تھوڑی عرصے کے لیے قومی ٹیم کی کوچنگ کی اور آسٹریلیا میں آخری ایشز سیریز کے انچارج ہونے کے ساتھ ساتھ آئی سی سی میچ ریفری کے طور پر بھی کام کیا۔ جس انداز اور جذبے کے ساتھ انھوں نے کھیل کھیلا اسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، پھر بھی اتنے نرم مزاج اور دلکش آدمی کی وجہ سے پاکستان کرکٹ بورڈ کے ساتھ جھڑپوں میں ان کا کافی وقت ضائع ہوا۔ ایک مراعات یافتہ پس منظر سے تعلق رکھنے پر وہ ایک سینئر کھلاڑی کی جرابوں کو خشک کرنے کے لیے باہر لٹکانے سے انکار کرتے ہوئے سب کی نظروں میں آ گئے اسی طرح اپنی روایتی مصلحت پسندی سے انھوں نے ٹیم کے اندر درجہ بندی کا حصہ بننے سے انکار کیا لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ وہ ہمیشہ مایوسی کا شکار رہتے تھے کہ جیسے اسے یہ یقین نہیں ہوتا تھا کہ اسے کھلایا جائے گا یا نہیں کیونکہ سینئر کھلاڑیوں کا گروپ ٹیم میں موجود تھا جو اپنی مرضی منواتے تھے لیکن اسے ہمیشہ یہ قلق رہا کہ وہ جاوید میانداد یا ظہیر عباس سے پہلے پاکستان کی کپتانی کر سکتے تھے۔ بہر حال، ایک بلے باز کے طور پر وہ 18 سال کی عمر میں شاندار تھے اور انڈر 19 ٹیم کی قیادت کی۔ اس کے بعد اکثر اس نے اپنے ہمعصر عمران خان کے ساتھ پریکٹس کرتے وقت پیڈ پہننے کی زحمت نہیں کی، جس نے اعتراف کیا کہ وسیم "مکمل طور پر ایک مختلف کلاس میں تھا اور پہلے سے ہی اپنے سالوں سے زیادہ میچورٹی کے ساتھ بیٹنگ کر رہا تھا"۔ وہ تین لڑکوں میں سب سے بڑا تھا، سبھی فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلتے تھے۔ اس کے بھائی رمیز راجا نے ٹیسٹ ٹیم میں ان کی پیروی کی اور بعد میں پاکستان کی کپتانی کی، جبکہ ان کے ایک اور بھائی زعیم حسن راجا نیشنل بینک کے لیے کھیلے۔ ان کے والد راجا سلیم اختر بھی سرگودھا کی کپتانی کرتے ہوئے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلتے تھے۔
وسیم نے صرف 15 سال کی عمر میں لاہور کے لیے فرسٹ کلاس ڈیبیو کیا، جب وہ گورنمنٹ کالج میں تھے اس کے بعد وہ پنجاب یونیورسٹی گئے، جہاں انھوں نے کرکٹ اور تعلیمی لحاظ سے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاست میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔
1972-73ء میں جب نیوزی لینڈ کے دورے میں انھیں متبادل کے طور پر بلایا گیا۔ اس نے 1974ء میں انگلینڈ میں خود کو قائم کرنا شروع کیا، جہاں وہ ٹور ایوریج میں سرفہرست رہے۔ "پرجوش" وسیم نے لارڈز میں دو اننگز کھیلی جنہیں وزڈن نے "ماسٹرلی" قرار دیا، اس نے ڈیرک انڈر ووڈ کو ڈرائینگ وکٹ پر سلیکٹیو حملے کے ساتھ جواب دیا۔ اس موسم سرما میں مقامی سیزن میں اس نے کراچی میں ویسٹ انڈیز کے خلاف اپنی پہلی ٹیسٹ سنچری بنائی۔ ان کی اننگز اتنی عمدہ تھی کہ ان کہر کسی نے تعریف کی مجموعی طور پر اس نے ویسٹ انڈیز کے خلاف 11 ٹیسٹ کھیلے، جن میں اینڈی رابرٹس، میلکم مارشل، جوئل گارنر اور کولن کرافٹ جیسے باولرز کے خلاف، 57.43 کی اوسط سے 919 رنز بنائے جو اس دور میں صرف گریگ چیپل کی اوسط سے زیادہ تھے اس کی صلاحتیں اس سے بھی زیادہ تھیں اس کا بھارت کے خلاف بھی ایک بہترین ریکارڈ رہا، جب اس نے 1978-79ء کے دورے پر دو دفعہ 90 رنز بنائے جب بہت سے دوسرے فرنٹ لائن بلے باز دباو میں تھے مگر وسیم راجا نے 56.25 کی اوسط سے 450 رنز کے ساتھ سیریز کا خاتمہ کیا۔ بھارت کی خلاف اس نے اپنا سب سے زیادہ ٹیسٹ اسکور 125 ناٹ آوٹ جالندھر میں بناہا اور اسی میچ میں انھوں نے مختصر لیگ اسپن کے ساتھ، 50 رنز کے عوض 4 کھلاڑیوں کی باریاں خم کرکے اپنی بہترین گیند بازی کی۔ کئی سالوں تک اس نے درہم کے لیے مائنر کانٹی کرکٹ کھیلی، جہاں اس کی ملاقات اپنی ہونے والی بیوی، این سے ہوئی، جو ایک کارآمد کرکٹ کھلاڑی بھی تھی۔ اس نے یونیورسٹی میں اپنی تدریسی ڈگری کے لیے تعلیم حاصل کی۔ وہاں ایک سنگین کار حادثے نے اس کی زندگی تقریبا ختم کر دی تھی مگر اپنے پاوں پر کھڑا ہونے کے نعد وہ کھیل میں واپس آ گیا اور اس نے ڈرہم کو 1990ء میں UAU چیمپئن شپ جیتنے میں مدد کی اور فائنل میں 50 رنز سے میچ جیتنے کا سبب ٹھہرا وہ 15 سال تک کیٹرہم اسکول میں جغرافیہ اور پی ای پڑھاتے رہے۔
انھوں نے 54 ایک روزہ میچ بھی کھیلے۔ ان کا آخری ٹیسٹ بھی نیوزی لینڈ کے خلاف انیس سو پچاسی میں آکلینڈ میں ہوا۔ وہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے کوچ بھی رہے اور انھوں نے آئی سی سی کے ریفری کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔
انھوں نے کرکٹ کی دنیا میں سب سے بڑا کارنامہ 1976-77ء میں ویسٹ انڈیز کے دورے پر انجام دیا۔ انھوں نے اس سیریز میں کرکٹ کی تاریخ کے تباہ کن فاسٹ بالنگ اٹیک کے خلاف پانچ سو سترہ رن ستاون عشاریہ چار کی اوسط سے بنائے۔ اس سیریز میں پاکستان کی ٹیم کو ویسٹ انڈیز کے بہترین تیز رفتار بالر گارنر، رابرٹس اور کرافٹ کا سامنا کرنا پڑا۔سنیل گواسکر کے علاوہ ویسٹ انڈیز کے دورے پر کسی بھی بلے باز نے ویسٹ انڈیز کے بالروں کے اتنی پٹائی نہیں کی تھی جتنی اس دورے پر وسیم حسن راجا نے کی۔ انیس سو تراسی چوراسی آسٹریلیا کے دورے پر جب عمران خان پاکستان ٹیم کی کپتانی کر رہے تھے تو وسیم راجا بھی اس ٹیم میں شامل تھے۔
وسیم حسن راجا نے 57 ٹیسٹ میچوں کی 92 اننگز میں 14 مرتبہ نائٹ آئوٹ رہو کر 2821 رنز سکور کیے۔ 36.16 کی اوسط سے بننے والے اس مجموعہ میں 4 سنچریاں اور 18 نصف سنچریاں نمایاں تھیں جبکہ 125 رنز اس کی کسی ایک اننگ کا سب سے بڑا انفرادی سکور تھا۔ 20 کیچز بھی ان کے مضبوط ہاتھوں میں سما گئے تھے۔ وسیم حسن راجا نے 54 ایک روزہ بین الاقوامی میچز کی 45 اننگز میں 10 مرتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر 60 کے بہترین انفرادی سکور کے ساتھ 782 رنز بنائے تھے جس کی اوسط 22.34 حاصل ہوئی تھی۔ 2 نصف سنچریاں اور 24 کیچز بھی ان کے ریکارڈ میں شامل ہیں۔ وسیم راجا نے 250 فرسٹ کلاس میچز کی 379 اننگز میں 54 مرتبہ آئوٹ ہوئے بغیر 11434 رنز سکور بورڈ پر سجائے تھے۔ 17 سنچریوں کی مدد سے 35.18 کی اوسط کے ساتھ ان کا سب سے زیادہ سکور 165 تھا۔ 156 کیچز بھی ہمیں بتاتے ہیں کہ وہ فیلڈنگ کے دوران کتنے متحرک کرکٹ کھلاڑی تھے۔ وسیم حسن راجا نے بولنگ میں 57 ٹیسٹ میچوں کی 69 اننگز کھیل کر 1826 رنز دیے اور 51 کھلاڑیوں کی اننگز کا خاتمہ کیا۔ 50/4 کسی ایک اننگ کی بہترین کارکردگی اور 86/6 کسی ایک میچ میں بہترین بولنگ پرفارمنس تھی۔ 35.80 کی اوسط سے وکٹیں لینے والے وسیم حسن راجا نے 686 رنز دے کر ایک روزہ مقابلوں میں 21 کھلاڑیوں کو اپنا نشانہ بنایا تھا۔ 25/4 ان کی کسی ایک میچ میں بہترین کارکردگی تھی اور انھیں 32.71 کی اوسط سے 7 وکٹ ملے۔ اس طرح انھوں نے 16211 رنز دے کر 558 فرسٹ کلاس میچوں میں کھلاڑیوں کی اننگز کا خاتمہ کیا۔ 65/8 کی بہترین کارکردگی کے ساتھ انھیں 29.05 کی اوسط حاصل ہوئی۔ 31 مرتبہ انھوں نے 5 یا اس سے زائد وکٹ اور 7 مرتبہ 10 یا اس سے زائد وکٹ کا حصول ممکن بنایا۔ وسیم راجا نے 1981ء میں آسٹریلیا کے خلاف پرتھ میں بہترین بولنگ کے اعداد و شمار حاصل کیے۔ انھوں نے ایک اوور پھینکا جس کے میڈن ہونے پر بھی انھوں نے ایک کھلاڑی کو اپنا نشانہ بنا لیا۔ اسی طرح انھوں نے 1982ء میں انگلستان کے خلاف 2.3 اوورز میں 2 میڈن اوورز کے دوران ایک کھلاڑی کی وکٹ حاصل کی۔ اسی طرح وسیم راجا نے 1982ء میں سری لنکا کے خلاف کراچی ٹیسٹ میں 3 اوورز میں 2 میڈن کے ساتھ ایک رن دے کر 2 وکٹیں حاصل کیں۔ وسیم راجا نے 1984ء میں انگلستان کے خلاف کراچی ٹیسٹ میں 3.3 اوورز کے سپیل میں ایک میڈن کے ساتھ 2 رنز دے کر 2 وکٹیں حاصل کیں۔ وسیم راجا کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھوں نے 1977ء میں ویسٹ انڈیز کے خلاف برج ٹائون کے مقام پر دسویں وکٹ کے لیے وسیم باری کے ساتھ مل کر 133 رنز کی عمدہ شراکت فراہم تھی۔ اس طرح انھوں نے اس ریکارڈ کو بہتر بنایا جو 1952ء میں پاکستان کی طرف سے ذو الفقار احمد اور امیر الٰہی نے چنائی کے مقام پر بھارت کے خلاف 104 رنز بنا کر قائم کیا تھا۔ پاکستان کی طرف سے 2014ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف سرفراز احمد اور راحت علی بھی دسویں وکٹ کے لیے 81 رنز کا ایک ریکارڈ رکھتے ہیں۔ وسیم راجا ایک یہ منفرد اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھوں نے 1985ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف ہملٹن کے مقام پر منعقد ہونے والے ایک روزہ بین الاقوامی میچ میں اننگ کا آغاز کیا اور بعد ازاں انھوں نے بولنگ میں بھی پہلی گیند پھینکی[4]
ایڈم لیکوڈی کے ساتھ، مل کر اس نے 1997ء میں ایک کتاب تحریر کی جس کا نام کارنرڈ ٹائیگرز: ہسٹری آف پاکستانز ٹیسٹ کرکٹ عبد الحفیظ کاردار سے وسیم اکرم تک حس کے 300 صفحات تھے۔
23 اگست 2006ء میں ایک کاونٹی میچ کے دوران میں سلپ میں کھڑے ساتھی فیلڈروں کو بتایا کہ ان کو چکر آ رہے ہیں اور میدان سے باہر جانا چاہتے ہیں۔ انھیں جب میدان سے باہر لے جایا جا رہا تھا تو وہ باونڈری لائن پر انتقال کر گئے ان کی عمر اس وقت 54 سال 51 دن تھی ان کے پسماندگان میں ان کی اہلیہ اینی اور ان کے دو بیٹے علی اور احمد ہیں۔