فائل:Waqar Hasan of Pakistan.png | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
ذاتی معلومات | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
پیدائش | 12 ستمبر 1932 امرتسر، پنجاب، برطانوی ہندوستان (موجودہ بھارت) | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
وفات | 10 فروری 2020 کراچی | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بلے بازی | دائیں ہاتھ کا بلے باز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
گیند بازی | دائیں ہاتھ کا گیند باز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
حیثیت | بلے بازی | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
تعلقات | جمیلہ رزاق (شادی. 1963–2020) پرویز سجاد (بھائی) سلطانہ (ساس) | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بین الاقوامی کرکٹ | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
قومی ٹیم |
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
پہلا ٹیسٹ (کیپ 11) | 16 اکتوبر 1952 بمقابلہ بھارت | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
آخری ٹیسٹ | 21 نومبر 1959 بمقابلہ آسٹریلیا | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
کیریئر اعداد و شمار | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
ماخذ: کرک انفو، 10 فروری 2020ء |
وقار حسن انگریزی:Waqar Hasan (پیدائش:12 ستمبر 1932ء امرتسر، پنجاب، بھارت)|(وفات:10 فروری 2020ء کراچی)ایک پاکستانی کرکٹ کھلاڑی تھے جنھوں نے پاکستان کی طرف سے 21 ٹیسٹ میچ کھیلے وقارحسن ایک ماہر سٹروک پلیئرتھے اور بہت عمدہ فیلڈر بھی۔ انھوں نے اپنی اول درجہ کا آغاز 17 سال کی عمر میں کیا انھوں نے پاکستان ایگلز کی طرف سے۔1951ء میں انگلینڈ کادورہ کیا۔ان کے ایک بحاٰی پروہز سجاد نے 1964ء سے 1973ء تک 19 ٹیسٹ کھیلے تھے۔
1952-53ء میں دورہ بھارت کے دوران میں جب ممبئی کے مقام پر تیسرے ٹیسٹ میں پاکستان کی ٹیم صرف 60 رنز پر 6 وکٹ گنوا چکی تھی تو وقار حسن نے پہلی اننگز میں 81 رنز بنا کر ٹیم کو سہارا دیا۔انھوں نے دوسری اننگز میں بھی 65 رنز بنائے تاہم بھارت یہ ٹیسٹ 10 وکٹوں سے جیتنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔اسی سیریز کے پانچویں ٹیسٹ میں انھوں نے ایک مرحلے پر ہاتھ سے نکلنے والے میچ میں پانچ گھنٹے کریز پر جمے رہ کر97 رنز کی باری مکمل کی اور ٹیسٹ کو ڈرا تک لے گئے یہی نہیں بلکہ وقار حسن نے کئی مواقعوں پر ٹیم کے لیے مردِ بحران کا کردار ادا کیا۔بھارت کے خلاف اس اولین سریز میں انھوں نے پانچ ٹیسٹ میچوں کی آٹھ اننگز میں 357 رنز بنائے۔44.62 کی اوسط سے تین نصف سنچریوں کے ساتھ وہ پاکستان کی طرف سے نمایاں سکورر تھے۔اگلی سیریز میں انگلینڈ کے خلاف انگلینڈ میں وہ زیادہ متاثر نہ سکے اور صرف 14.71 کی اوسط سے 53 رنز کی واحد نمایاں باری ہی ان کے کھاتے میں درج ہوئی۔ اس کے بعد بھارت کے خلاف ملکی سرزمین پر انھوں نے دونصف سنچریاں بنا ڈالیں۔52 رنز کی بڑی اننگز کے ساتھ ان کی اوسط 30.50 تھی جبکہ مجموعی رنز 244 تھے۔اگلی سیریز نیوزی لینڈ کے خلاف تھی یہاں ان کو لاہورکے ٹیسٹ میں اپنی اعلیٰ کارکردگی دکھانے کاموقع ملا۔ جس میںبھی پاکستان کی ٹیم ایک مرحلے پر 111 رنز پر 6 وکٹ گنوا چکی تھی اس موقع پر وقار احمد نے امتیازاحمد کے ساتھ مل کر 300 رنز کی شراکت قائم کی جوایک عرصے تک ریکارڈ رہا۔اس کے بعد وقارحسن نے آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے خلاف چار ٹیسٹ میچ بھی کھیلے مگر کوئی قابل ذکر کارکردگی نہ دکھاسکے۔ آسٹریلیا کے خلاف 1959ء میں لاہور ٹیسٹ ان کا آخری ٹیسٹ تھا تاہم وہ 1965ء تک اول درجہ کرکٹ سے وابستہ رہے۔
وقارحسن کی شادی بھارت کی ابتدائی فلمی اداکارہ سلطانہ رضا کی بیٹی جمیلہ رزاق سے ہوئی' سلطانہ رضا بھارت کی پہلی خاتون فلم ڈائریکٹر فاطمہ بیگم کی پوتی تھی اوربھارت کی پہلی بولتی فلم عالم آرا کی اداکارہ زبیدہ کی نواسی تھی۔1954ء میں وقار حسن لاہور سے کراچی منتقل ہوگئے اورپاکستان پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ سینما انسپکٹر کے طورپر کام کرنے لگے ۔1960ء کے آغاز میں وہ کاروباری شعبے میں آگئے اورملک کے ایک بڑے ادارے نیشنل فوڈز کے چیف ایگزیکٹو آفیسر رہے۔وقار حسن کے مطابق ’کاروبار شروع کرنے کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ 1960ء میں ٹیسٹ ٹیم میں میری جگہ نہیں بن رہی تھی مگر بنیادی وجہ معاشی تھی۔ میں نے 27 سال کی عمر میں ہی اپنا کاروبار شروع کر لیا تھا کیونکہ میں نے عامر الہیٰ اور وزیر علی جیسے ساتھی کھلاڑیوں کو بہت اچھی زندگی گزارتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔‘2002ء میں انہوں نے کرکٹ جرنلسٹ قمراحمد کی معاونت سے اپنی آب بیتی ''کرکٹ اینڈ کنٹری'' تحریر کی۔
برطانوی صحافی کرسٹوفر مارٹن جینکنز نے ’ورلڈ کرکٹرز، ایک بائیوگرافیکل ڈکشنری (آکسفورڈ، 1996ء)‘ میں وقار کے بارے میں لکھا کہ ’وقار حسن ایک پرکشش سٹروک میکر اور مشکل صورت حال کے بہترین کھلاڑی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عمدہ فیلڈر تھے۔‘
نومبر 2012ء میں ’دی کرکٹ منتھلی‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے وقار حسن نے کہا تھا کہ ’اس سے مجھے بے حد اطمینان حاصل ہوتا ہے کہ میں نے ’پاکستان کا پہلا کھلاڑی‘ ہونے کے متعدد اعزاز اپنے نام کیے۔ میں ٹیسٹ میچ کی دونوں اننگز میں نصف سنچری بنانے والا پہلا کھلاڑی بنا، انگلینڈ میں پہلی نصف سنچری بنائی، پاکستان میں کھیلتے ہوئے پہلی نصف سنچری بنائی، ہوم ٹیسٹ میں دو نصف سنچریاں بنانے والا کھلاڑی بنا، حنیف محمد کے ساتھ پہلی سنچری پارٹنرشپ قائم کی اور 1955-56ء میں امتیاز احمد کے ساتھ پہلی ڈبل سنچری پارٹنرشپ بنائی۔
وقار حسن نے 21 ٹیسٹ میچوں کی 35 اننگز میں ایک مرتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر 1071 رنز بنائے۔ 31.50 کی اوسط سے بنائے گئے ان رنزوں میں ان کا سب سے زیادہ سکور 189 تھا۔ ایک سنچری اور 6 نصف سنچریوں کی مدد سے ان رنزوں کا مجموعہ تخلیق پایا تھا۔ وقار حسن نے 99 فرسٹ کلاس میچز کی 145 اننگز میں 12 مرتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر 4741 رنز کا ہدف مکمل کیا۔ 35.64 کی اوسط سے بنے اس مجموعہ میں ناقابل شکست 201 رنز ان کی کسی بھی ایک اننگ کا سب سے بڑا سکور تھا۔ 8 سنچریاں اور 47 کیچز بھی اس اعداد و شمار کا حصہ تھے۔ وقار حسن نے ٹیسٹ میں تو کوئی وکٹ حاصل نہیں کی مگر فرسٹ کلاس کرکٹ میں ان کے ریکارڈ میں 2 وکٹیں شامل ہیں۔
پاکستان کی اولین کرکٹ ٹیم کے یہ آخری کھلاڑی 10 فروری 2020ء کو کراچی میں 87 سال اور 157 دن کی عمر میں دنیا سے رخصت ہو گئے۔
پیش نظر صفحہ سوانح پاکستانی کرکٹ سے متعلق سے متعلق موضوع پر ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں مزید اضافہ کرکے ویکیپیڈیا کی مدد کرسکتے ہیں۔ |