پاکستان میں قومیانے کا عمل (Nationalization Policy) [1] (یا دوسرے الفاظ میں " پاکستان میں صنعتوں کو قومی تحویل میں لینا "کہا جاتا ہے) پاکستان کی معاشی تاریخ میں ایک پالیسی اقدام پروگرام تھا، جس نے پاکستان کی صنعت کاری کو بدترین بنا دیا اور تاجروں اور سرمایہ کاروں کا اعتماد اٹھایا۔ یہ سب سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو اور پاکستان پیپلز پارٹی نے متعارف کرایا، نافذ کیا اور عمل درآمد کروایا تاکہ پاکستان کی قومی معیشت کی ترقی کو بہتر بنانے کے لیے سوشلسٹ معاشی اصلاحات کی بنیاد رکھی جا سکے۔ [2] 1950 کی دہائی سے، ملک تیزی سے صنعتی ترقی سے گذرا اور ایشیا میں ایک صنعتی جنت بن گیا۔ [3] لیکن، جیسے جیسے وقت آگے بڑھتا گیا، مزدور ٹریڈ یونینز اور مزدور مزدور طبقے کے صنعتی کاروباری اولیگارچ طبقے کے ساتھ تعلقات بڑھتے بڑھتے کشیدہ ہوتے گئے، کام کے حالات کو بہتر بنانے اور ان صنعتی صنعتوں میں مزدوروں کے لیے صحت مند اور محفوظ ماحول فراہم کرنے میں ناکام رہے۔ [4]
تقسیم ہند کے وقت پاکستان کے حصے میں آنے والی چند صنعتیں ہماری بنیادی ضروریات پورا کرنے کے لیے ناکافی تھیں۔آزادی کے بعد پہلے عشرے میں صنعتی پیداوار اتنی قلیل تھی کہ آٹا اور چینی کی بھی راشن بندی کرنا پڑی۔ صدر ایوب خاں کے دور میں صنعت کاری کا آغاز ہوا اور تیزی سے بڑی صنعتیں قائم ہوئیں ،جن میں ٹیکسٹائل، گھی، چینی، سیمنٹ اور کھاد کے کارخانے شامل تھے۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے ساتھ ساتھ مقامی سرمایہ کار بھی میدان عمل میں آئے اور صنعتی ترقی کی رفتار میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ سرمایہ دارانہ نظام میں منافع کمانے کی کوئی اخلاقی حد تو مقرر نہیں ہوتی، اس دور میں دولت کا ارتکاز 22 خاندانوں تک محدود ہو گیا۔ عام آدمی کی زندگی میں کوئی نمایاں تبدیلی نہ آ سکی۔ صنعت کاری کے فروغ کے ساتھ صنعتی کارکنوں نے ٹریڈ یونینیں قائم کرنا شروع کر دیں۔ مزدور کے حالات کار بد سے بدتر ہوتے گئے۔ آجر اور اجیر کے درمیان فاصلے بڑھتے گئے ،جس کے نتیجے میں صنعتی ماحول خراب ہوا۔ سرمایہ کار مزدوروں کو سہولتیں دینے سے انکاری تھا اور مزدور نا مساعد حالات کی وجہ سے اپنے فرائض میں غفلت برت رہا تھا۔۔۔ستر کی دہائی میں سوویت روس کا کمیونزم دنیا کے بیشتر ممالک کو نظریاتی طور پر متاثر کر چکا تھا، پاکستان بھی اس کی دست برد سے محفوظ نہ رہ سکا۔ [5]
1968 میں بیوروکریٹ ڈاکٹر محبوب الحق نے یہ نعرہ دیا کہ ملکی دولت پر بائیس خاندانوں کا قبضہ ہے، آج کہا جارہا ہے کہ ملکی دولت اکتیس خاندانوں کے تسلط میں ہے۔[6]
ڈاکٹر محبوب الحق کے نعرے کی بنیاد پر ذو الفقار علی بھٹو نے اداروں کو نیشنلائز کرنے کا خیال پیش کیا ۔[6]
اس تقریر سے معاشیات کے سیاسی حالات پر گہرا اثر پڑا۔ تقریر اور رپورٹ کے اعداد و شمار اور دولت کے طریق ارتکاز و استعمال کو فراموش کر دیا گیا، بس ایک لفظ بائیس خاندان سیاسی زبان کا محاورہ بن گیا۔ بائیس خاندان سیاسی صحافت کی اصطلاح بن گیا جس سے بالخصوص اس وقت کے حزب اختلاف کے رہنما ذو الفقار علی بھٹو نے خوب فائدہ اٹھایا اور اپنی تقریروں میں بائیس خاندانوں کے خلاف سخت غصے اور ناراضی کا اظہار کیا جس نے بالآخر جنوری 1972ء کو ایک مقبول سیاسی حربے کی طور پر بڑی بڑی صنعتوں کو قومیانے کی شکل اختیار کر لی ۔
ذو الفقار علی بھٹوکے اقتدار میں آتے ہی یعنی انیس سو اکہتر اور بہتّر کے دوران ہی ہم غربت کے انسیڈنٹ میں 55 فیصد پر پہنچ گئے تھے۔ اس کے فوراً بعد 1973 کا تیل کی قیمتوں کا عالمی شاک شروع ہوا۔ اس شاک کی وجہ سے تیل کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کے باعث آنے والے سالوں میں پوری دنیا میں بد ترین معاشی بحران پیدا ہوا‘ جس سے پاکستان سمیت دنیا کے تمام ممالک شدید طور پر متاثر ہوئے۔ یہ بحران 1975 سے لے کر 1977 تک چلتا رہا۔ اس دوران معیشت کے لیے جو تباہ کن واقعات رونما ہوئے اور معیشت کو منفی انداز میں متاثر کرنے والے دیگر بڑے واقعات ہوئے‘ ان میں کاٹن کی فصل کی بڑے پیمانے پر ناکامی اور فصلوں پر پیسٹس کا حملہ تھا۔ یہ وہ طوفانی واقعات تھے، جنھوں نے قومی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس سے غربت، بے روزگاری اور طبقاتی تقسیم میں اضافہ ہوا۔ یہ مسائل اتنے گمبھیر تھے کہ ان کے حل کے لیے کسی انقلابی نظریے کی ضرورت تھی۔ سوشلزم اس وقت دنیا بھر میں تیز رفتار ترقی اور طبقاتی تقسیم میں کمی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا۔ درجنوں ممالک اس کا کامیاب تجربہ کر چکے تھے۔ بھٹو صاحب نے اس تجربے سے استفادہ کرنے کی بے دلی اور ڈھل مل یقینی سے ادھوری سی کوشش کی، جس میں ناکامی کا ذمہ دار سوشلسٹ نظریات کو ٹھہرانا نا انصافی ہو گی۔ وزیر اعظم نے جس چین کی قابل رشک ترقی کی تعریف کی اور اسے قابل تقلید قرار دیا وہ ترقی بھی سوشلسٹ نظریے کی ہی مرہون منت ہے۔[7]
ذو الفقار علی بھٹو نے 2 جنوری 1972ء کو منشور کے مطابق بڑی صنعتوں کو قومی ملکیت میں لانے کا آغاز کیا۔ پہلے فیز میں فولاد، سٹیل، ہیوی انجینئرنگ، الیکٹریکل انجینئرنگ موٹر ٹریکٹر ،بجلی کی پیداوار ،ترسیل اور تقسیم، گیس اور آئل ریفائنری کی صنعتوں کو قومی تحویل میں لیا گیا۔ پہلے مرحلے کے بعد یکم جنوری 1974ء کو بینک اور مالیاتی اداروں کو قومیانے کے لیے پارلیمان میں منظوری دی گئی۔ ڈاکٹر مبشر حسن وزیر خزانہ نے فرمایا تھا:’’کل تک بینک چند پرائیویٹ گروپوں کے قبضے میں تھے جو اپنی مرضی سے صنعتوں کو سرمایہ فراہم کرتے تھے۔ آج ہم ان کی اجارہ داری کو ختم کر کے انھیں قومی ملکیت میں دیتے ہیں۔ کیونکہ گذشتہ حکومت نے صنعتی طاقت کو چند لٹیروں کے ہاتھوں میں مرکوز کیا ہوا تھا‘‘۔۔۔اس مرحلے میں 13 بڑے بینکوں 12 انشورنس کمپنیوں، 2 پٹرولیم کمپنیوں اور 10 شپنگ کمپنیوں کو سرکاری تحویل میں لیا گیا۔ لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری سے خطاب کرتے ہوئے ذو الفقار علی بھٹو نے یہ موقف پیش کیا کہ بڑی صنعتوں کو قومی تحویل میں لینے کا مقصد سرمائے کو چند ہاتھوں میں مرکوز کرنے سے روکنا اور چھوٹے درمیانے سرمایہ دار کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔[5]
تیسرے مرحلے میں 2000 کے لگ بھگ کاٹن جننگ، رائس ہسکنگ اور فلور ملوں کو قومی ملکیت میں لیا گیا۔ اس کے بعد پورے ملک میں رد عمل کے نتیجے میں مخالفت کا دور شروع ہو گیا۔ نیشنلائزیشن کے متاثرین میں شریف فیملی اور چودھری برادران سرفہرست تھے۔ [5]
قومیانے کا پروگرام 2 جنوری 1972 کو شروع ہوا، جس کا مقصد معاشی جمہوریت ، لبرلائزیشن اور پاکستان کو ریاستی ترقی پسندی کے مطابق بنانے کے لیے مرکزی دھارے کے ابتدائی ہدف کو فروغ دینا تھا۔ [8] 1977 میں مؤثر طریقے سے ختم ہوا، قومیانے کا پروگرام دوبارہ 1996 میں وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے پیش کیا، [9] اور حال ہی میں اس وقت کے موجودہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے 2012 میں اس پروگرام کو فعال کیا جس نے تین بڑے بڑے کارپوریشنز ( اسٹیل ملز ، ریلوے اور بین الاقوامی ایئر لائنز ) حکومت کی ملکیت میں اس کے ڈھانچے کو بہتر بنانے اور اس کے منافع بخش عمل کو کم کرنے کی کوشش کیں ۔ [10]
اپنے ابتدائی سالوں میں اس کی کامیابی کے باوجود، اس طرح کے پالیسی اقدامات کے پروگرام انتہائی نقصان دہ حد تک پہنچے[توضیح درکار] اور بین الاقوامی اور قومی مخالفت کی سطح جس نے پاکستان کی قومی معیشت پر تباہ کن اثرات چھوڑے [11] اور نجی کمپنیوں کے حکومتی قبضے نے پاکستان کی معیشت کو بدترین بنا دیا اور سرمایہ کاروں کا پاکستان میں اعتماد ختم ہو گیا یہاں تک کہ اسے بعد میں نجکاری پروگرام سے تبدیل کر دیا گیا۔ [12]
ذوالفقار علی بھٹو (1928–1979) بھارت کے ساتھ 1971 کی جنگ کے تباہ کن خاتمے کے بعد 21 دسمبر 1971 کو پاکستان کے صدر (1971–74) بنے۔ [13] قومیانے کا پروگرام پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار لاگو کیا گیا اور اسے تین مختلف مراحل سے گزارا گیا۔ یکم جنوری 1972 کو، قوم کے نام ایک ٹیلی ویژن تقریر پر، بھٹو اور پیپلز پارٹی کی حکومت نے "نیشنلائزیشن اینڈ اکنامک ریفارمز آرڈر (NERO)" کے تحت تین مرحلوں پر مشتمل پروگرام کا اعلان کیا، جس نے لوہے اور اسٹیل سمیت تمام بڑی دھاتی صنعتوں کو قومیا لیا تھا۔ ہیوی انجینئرنگ، ہیوی الیکٹریکل، پیٹرو کیمیکل، سیمنٹ اور پبلک یوٹیلیٹیز سوائے ٹیکسٹائل انڈسٹری اور زمینوں کے۔ [13] قومیانے کے پروگرام کے پہلے مرحلے میں تقریباً 31 بڑے صنعتی میگا کارپوریشنز، صنعتی اکائیوں اور کاروباری اداروں کو ضم کیا گیا، جو بنیادی صنعتوں کے 10 مختلف زمروں کے تحت حکومت کے براہ راست انتظامی کنٹرول میں ہیں۔ اس پروگرام کا مقصد صنعتی میگا کارپوریشنوں پر عوامی ملکیت کا دعویٰ کرنا اور ملک میں صنعتی امن کو برقرار رکھنے کے لیے مزدور یونینوں کو مطمئن کرنا تھا۔ [13]
” | I had made a pledge to the people of Pakistan to implement industrial reforms.... I am now beginning to redeem the pledge....! | “ |
—Zulfikar Ali Bhutto, 1971، Cited source[14] |
یعنی، قومیانے کے پروگرام کے پہلے مرحلے میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی طرف سے منظور شدہ منتخب صنعتوں کو مربوط کیا گیا اور قومیانے کے پروگرام نے لوہے اور سٹیل، بنیادی دھاتی صنعتوں، بھاری انجینئرنگ کی صنعتوں، بھاری الیکٹریکل صنعتوں، موٹر گاڑیوں کی اسمبلی اور تیاری، ٹریکٹر عوام کو فراہم کیا۔ عوامی شعبے کے انتظام کے تحت بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم، گیس اور آئل ریفائنری سمیت افادیت۔1972 میں بڑی تعداد میں عیسائی تعلیمی سہولیات کو بھی قومیا لیا گیا۔ اس کی ایک مثال راولپنڈی کا گورڈن کالج ہے۔ پشاور میں عیسائی اسکولوں کو قومیانے کا عمل بعد کی حکومت کے دور میں ہوا۔ صوبائی گورنر نے بھٹو کی پالیسی پر عمل درآمد سے انکار کر دیا۔ وہ اپنے صوبے میں اقلیتوں کو نقصان پہنچانا نہیں چاہتے تھے۔
پہلے مرحلے کی کامیابی کے بعد، قومیانے کے پروگرام نے دوسرے مرحلے میں قدم رکھا جب اسے 1 جنوری 1974 کو شروع کیا گیا، جس کا مقصد پاکستان میں بینکاری اور مالیاتی صنعت اور شعبے کو قومی بنانا تھا۔ پارلیمنٹ کے ذریعے منظور کیا گیا، 13 سے زیادہ بڑے بینکوں، ایک درجن سے زائد انشورنس کمپنیوں، دو پٹرولیم کمپنیوں اور 10 شپنگ کمپنیوں کو زبردستی قومیا لیا گیا۔ دوسرے پروگرام کی صدارت وزیر خزانہ مبشر حسن نے کی جنھوں نے اس بات پر زور دیا کہ ’’قوم کی دولت کو قوم کے مفاد کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے اور اسے چند افراد کے بینکوں میں مرکوز کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔‘‘
Banks ...which till (Monday) were the private property of a group are now public property.... All our big industries in the private sector were set up largely on the basis of financial accommodation provided by the banks and the financial institutions..... Because of the previous governments obsessions with GNP growth, (...)... industrial power was concentrated in the hands of few robbers barons
—
— Dr. Mubashir Hassan, source
یکم اپریل 1973 کو بھٹو نے لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ارکان کے ساتھ میٹنگ کی اور کہا:
Activity of public sector prevents the concentration of economic power in few hands and protects the small and medium entrepreneurs from the clutches of giant enterprises and vested interests
—
تیسرا پروگرام جلد ہی 1 جولائی 1976 کو شروع ہوا، جب تقریباً 2000 کپاس، جننگ اور چاول کی بھوسی کو قومیانے کے پروگرام کے تحت آیا۔ یہ پروگرام انتظامی خوفناک خواب اور بڑے پیمانے پر عوامی ناراضی کے ساتھ ملا۔ تیسرے پروگرام نے مڈل مین کے کردار کو ختم کر دیا اور یہ افواہ پھیلائی گئی کہ کپاس، چاول اور گندم کے پروڈیوسر کے ساتھ ساتھ صارفین بھی ان اجناس کی ملنگ میں تجارت کرنے والے درمیانی مردوں کے رحم و کرم پر ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پروڈیوسرز محروم ہو گئے۔ واجب الادا حصہ اور صارفین کو ناقص معیار اور ملاوٹ والی اشیاء بہت زیادہ قیمتوں پر ملیں۔ [15] 1977 تک، پیپلز پارٹی کی حکومت نے سیمنٹ، سٹیل اور کھادوں پر ترجیح کے ساتھ ایک مضبوط اور قابل قدر پبلک سیکٹر بنایا تھا۔
نومبر 1988 میں بے نظیر بھٹو اور پاکستان پیپلز پارٹی دوسری بار اقتدار میں آئیں۔ [16] 1988 میں انتخابی مہم کے دوران، بے نظیر بھٹو نے صنعتی شعبے سے وعدہ کیا تھا کہ وہ قومیانے کے پروگرام کو ختم کریں گے اور صنعت کاری کو ریاستی مداخلت کے علاوہ کسی اور طریقے سے انجام دیں گے۔ [16]
لیکن متنازع طور پر، بے نظیر بھٹو نے غیر ملکی کاری کے پروگرام یا قومی معیشت کو لبرلائز کرنے کی ہدایات کو اختیار نہیں دیا۔ کسی بھی قومی یونٹ کی نجکاری نہیں کی گئی، صرف چند اقتصادی ضوابط کا جائزہ لیا گیا۔ [17] اگرچہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے دوران محدود پیمانے پر نجکاری جاری رہی، یو بی ایل پاکستان اور ریلوے کنسورشیم کو بے نظیر بھٹو نے 1996 میں برطرف کرنے سے پہلے مکمل طور پر قومیا لیا تھا۔ دوسری حکومت کے دوران، پیپلز پارٹی نے پاکستان ریلوے اور پاکستان سٹیل ملز پر حکومتی کنٹرول کو تیز کر دیا۔ تمام حصص حکومتی انتظامی ملکیت میں رکھے گئے تھے۔ 1998 میں، وزیر اعظم نواز شریف نے بھارت کو براہ راست جواب دیتے ہوئے ایٹمی ڈیٹرنس کا مظاہرہ کرنے کے بعد اقتصادی ایمرجنسی نافذ کر دی۔ تمام سرکاری کارپوریشنز اور پرائیویٹ سیکٹر انڈسٹریز کے اثاثے منجمد کر دیے گئے تھے نواز شریف نے حکومت کے زیر کنٹرول نجی اثاثے منجمد کرنے کے حکم کے بعد مالیاتی تباہی کو روکنے کے لیے۔ پاکستان میں ایٹمی پروگرام کی بنیاد [ذو الفقار علی بھٹو] نے رکھی تھی۔
1999 سے 2010 تک، قومی تحویل پالیسی کا خاتمہ تقریبا ہو گیا اور 2011 تک مؤثر طریقے سے اپنے اختتام کو پہنچا۔ 15 دسمبر 2011 کو وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی طرف سے قومیانے کا پروگرام دوبارہ شروع کیا گیا، تاکہ سابقہ سرکاری اداروں کو محفوظ بنایا جا سکے۔ قومیانے کا پروگرام پاکستان اسٹیل ملز، [18] پاکستان ریلویز کے ساتھ ساتھ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کی حکومتی ملکیت کو بڑھانے کے لیے پیش کیا گیا تھا۔ [19] نیشنلائزیشن کا موجودہ پروگرام حکومتی ملکیت میں رہتے ہوئے تنظیم نو اور منافع بخش بنانے کے لیے برقرار ہے۔ [19]
1953 نیشنل موٹر کارپوریشن نے امریکن جنرل موٹرز کے اشتراک سے پاکستان کی پہلی واکس ہال گاڑی تیار کی۔
جبکہ بعد میں پاکستاں کے مشہور زمانہ بیڈ فورڈ ٹرک اسی پلانٹ پر تیار کیے گئے۔
1953 میں ایکسائڈ بیٹریز نے پاکستان کا پہلا بیٹری پلانٹ لگایا۔
1954 میں علی موٹرز نے فورڈ موٹرز امریکا کے ساتھ مل کر پہلی کار، ٹرک اور اس کے بعد پک اپ ٹرک تیار کرنے کی غرض سے پلانٹ لگایا۔
1956 میں ہارون انڈسٹریز نے ڈوجے امریکہ کے برینڈ نیم سے پک اپ ٹرک تیار کیا۔
1961 میں آل ون انجینئرنگ نے پاکستان میں گاڑیوں کے پارٹس تیار کرنے کا جدید پلانٹ لگایا۔
1962 میں وزیر انڈسٹریز نے اٹالین لمبریٹا سکوٹر کمپنی کے اشتراک سے پاکستان کا پہلا سکوٹر لمبریٹا TV200 تیار کیا۔
1962 میں کندھنوالہ انڈسٹریز نے امریکن جیپ کمپنی کے مختلف ماڈل سیریز CJ 5, CJ 6, Cj 7 ملک میں پہلی بار تیار کی۔
1963 میں جنرل ٹائرز نے کراچی میں پہلا ٹائروں کا پلانٹ کانٹنٹل ٹائرز جرمنی کے تعاون سے قائم کیا۔
1963 میں ہائے سن گروپ نے امریکن ماک ٹرک کی پیداوار شروع کی۔
1964 میں رانا ٹریکٹرز (موجودہ ملت) نے میسی فرگوسن ٹریکٹرز کی ملکی سطح پر پیداوار کا آغاز کیا۔
1964 میں نیشنل موٹرز کو خٹک خاندان نے خریدا تو وہ گندھارا موٹر انڈسٹریز بنی۔
1964 میں ہی راجا موٹرز نے اٹالین مشہور زمانہ ویسپا سکوٹر کی پاکستان میں پیدوار شروع کی۔
1964 اٹلس آٹوز نے پہلا ہنڈا موٹر سائیکل کا پلانٹ لگایا۔
1965 میں جعفر موٹرز نے مختلف آپریشن جیسے ٹریلر بیڈ ، ایمبولینس، فائر بریگیڈ کے لیے گاڑیاں تیار کرنے کا آغاز کیا۔
1965 میں مانو موٹرز نے ٹیوٹا گاڑیوں کی مقامی سطح پر پیداوار کی بنیاد رکھی۔۔
ساٹھ کی دہائی تک پاکستان میں انڈسٹری فروغ پا رہی تھی۔ اصفہانی ، آدم جی ، سہگل ، جعفر برادرز ، رنگون والا، افریقہ والا برادرز جیسے ناموں نے پاکستان کو انڈسٹریلائزیشن کے راستے پر ڈال دیا تھا۔ دنیا پاکستان کو انڈسٹریل پیراڈائز کہا کرتی تھی۔ ماہرین کا کہنا تھا ترقی کی رفتار یہی رہی تو پاکستان ایشیا کا ٹائیگر بن جائے گا۔
یہاں فیکٹریاں ، ملیں اور کارخانے لگ رہے تھے۔بجائے ان کاروباری خاندانوں کے مشکور ہونے کے کہ وہ معاشی سرگرمی کو زندہ رکھے ہوئے تھے، ہمارے ہاں سرمایہ دار کو ہمیشہ دشمن سمجھا گیا‘ رہی سہی کسر بھٹو کے سوشلزم کے خواب نے پوری کر دی۔ ہمارے ہاں نظمیں پڑھی جانے لگیں ’’ چھینو مل لٹیروں سے ‘‘۔چنانچہ ایک دن بھٹو صاحب نے نیشنلائزیشن کے ذریعے یہ سب کچھ چھین لیا۔ لوگ رات کو سوئے تو بڑے وسیع کاروبار کے مالک تھے صبح جاگے تو سب کچھ ان سے چھینا جا چکا تھا۔
بھٹو نے 31 صنعتی یونٹ، 13 بنک ، 14 انشورنش کمپنیاں ، 10 شپنگ کمپنیاں اور 2 پٹرولیم کمپنیوں سمیت بہت کچھ نیشنلائز کر لیا۔ سٹیل ملز کارپوریشن آف پاکستان ، کراچی الیکٹرک، گندھارا انڈسٹریز ، نیشنل ریفائنریز، پاکستان فرٹیلائزرز، انڈس کیمیکلز اینڈ اندسٹریز، اتفاق فاؤنڈری، پاکستان سٹیلز، حبیب بنک ، یونائیٹڈ بنک ، مسلم کمرشل بنک ، پاکستان بنک ، بینک آف بہاولپور ، لاہور کمرشل بنک ، کامرس بنک ، آدم جی انشورنس، حبیب انشورنس، نیو جوبلی، پاکستان شپنگ، گلف سٹیل شپنگ، سنٹرل آئرن ایند سٹیل سمیت کتنے ہی اداروں کو ایک حکم کے ذریعے ان کے جائز مالکان سے چھین لیا گیا۔
مزدوروں اور ورکرز کو خوش کرنے کے لیے سوشلزم کے نام پر یہ واردات اس بے ہودہ طریقے سے کی گئی۔ شروع میں کہا گیا حکومت ان صنعتوں کا صرف انتظام سنبھال رہی ہے ، جب کہ ملکیت اصل مالکان ہی کی رہے گی۔ پھر کہا گیا ان ان صنعتوں کی مالک بھی حکومت ہو گی۔ پہلے کہا گیا کسی کو کوئی زر تلافی نہیں ملے گا۔ پھر کہا گیا دیا جائے گا۔ کبھی کہا گیا مارکیٹ ریٹ پر دیا جائے گا پھر کہا گیا ریٹ کا تعین حکومت کرے گی۔ یوں سمجھیے ایک تماشا لگا دیا گیا۔ مزدور اور مالکان کے درمیان معاملات خراب تھے یا دولت کا ارتکاز ہو رہا تھا تو اس معاملے کو اچھے طریقے سے بیٹھ کر حل کیا جا سکتا تھا۔مزدوروں کی فلاح کے لیے کچھ قوانین بنائے جا سکتے تھے لیکن بھٹو دلیپ کمار بننا چاہتے تھے۔ وہ مزدور اور کارکن کو یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ سرمایہ داروں کے خلاف انھوں نے انقلاب برپا کر دیا ہے۔ یہ تاثر قائم کرتے کرتے انھوں نے پاکستانی معیشت کو برباد کر دیا۔
1972 میں تمام آٹو صنعتوں کو قومیا کر پاکستان آٹو موبائل کارپوریشن کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے۔ علی موٹرز کو عوامی موٹرز، وزیر علی انجینئرنگ کو سندھ انجینرنگ، ہارون انڈسٹریز کو ریپبلک موٹرز، گندھارا موٹرز کو نیشنل موٹرز، کندھنوالہ موٹرز کو نیا دور موٹرز، ہائے سن کو ماک ٹرک، جعفر موٹرز کو ٹریلر ڈیولپمنٹ کارپوریشن کا نام دیا جاتا ہے۔
جبکہ رانا ٹریکٹرز کو ملت ٹریکٹرز کا نام دے کر پاکستان ٹریکٹر کارپوریشن کا ادارہ قائم کیا گیا۔
بھٹو صاحب بھی کسی کے منصوبوں پر اپنی تختی لگاتے رہے۔ جس کی بدولت آج تک ہماری صنعت مکمل بحال نہیں ہو سکی۔ اگر یہ تمام ادارے اپنے اصل مالکان کے پاس ہوتے تو آج پاکستان کے اپنے برینڈ لانچ ہو چکے ہوتے۔ آج ہمارے ملک کی بنی گاڑیاں، موٹر سائیکل ، ٹریکٹر اور ٹرک دوسرے ممالک کی سڑکوں پر نظر آ رہے ہوتے۔ بالکل ایسے جیسے ٹاٹا اور مہاہندرہ کی مصنوعات عرب دنیا اور افریقہ میں نظر آ رہی ہیں۔
آج ان قومیائی گئی صنعتوں میں سے صرف 3 ٹوٹی پھوٹی حالت میں کسی نہ کسی طرح زندہ ہیں۔ باقی سب کا وقت کے ساتھ انتقال ہو گیا۔
سابق مشیر رزاق داؤد کے دادا سیٹھ احمد داؤد کو جیل میں ڈال کر ان کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا۔ بعد ازاں وہ مایوس ہو کر امریکا چلے گئے اور وہاں تیل نکالنے کی کمپنی بنا لی۔اس کمپنی نے امریکا میں تیل کے چھ کنویں کھودے اور کامیابی کی شرح 100 فیصد رہی۔ آج ہمارا یہ حال ہے کہ ہم تیل کی تلاش کی کھدائی کے لیے غیر ملکی کمپنیوں کے محتاج ہیں۔ صادق داؤد نے بھی ملک چھوڑ دیا ، وہ کینیڈا شفٹ ہو گئے۔
ایم اے رنگون والا ایک بہت بڑا کاروباری نام تھا۔ وہ رنگون سے بمبئی آئے اور قیام پاکستان کے وقت سارا کاروبار لے کر پاکستان آ گئے۔ وہ یہاں ایک یا دو نہیں پینتالیس کمپنیاں چلا رہے تھے۔ انھوں نے بھی مایوسی اور پریشانی میں ملک چھوڑ دیا، وہ ملائیشیا چلے گئے۔
بٹالہ انجینئرنگ کمپنی والے سی ایم لطیف بھی بھارت سے پاکستان آ چکے تھے اور بادامی باغ لاہور میں انھوں نے پاکستان کا سب سے بڑا انجینئرنگ کمپلیکس قائم کیا تھا جو ٹویوٹا کے اشتراک سے کام کر رہا تھا۔یہ سب بھی ضبط کر لیا گیا۔ انھیں اس زمانے میں ساڑھے تین سو ملین کا نقصان ہوا اور دنیا نے دیکھا بٹالہ انجینئرنگ کے مالک نے دکھ اور غم میں شاعری شروع کر دی۔ رنگون والا ، ہارون ، جعفر سنز ، سہگل پاکستان چھوڑ گئے۔ کچھ نے ہمت کی اور ملک میں ہی رہے‘ جیسے دادا گروپ ، آدم جی، گل احمد اور فتح، لیکن ان کا اعتماد یوں مجروح ہوا کہ پھر کسی نے انڈسٹریلائزیشن کو سنجیدہ نہیں لیا۔
احمد ابراہیم کی جعفر برادرز اس زمانے میں مقامی طور پر کار بنانے کے قریب تھی۔ ہم آج تک کار تیار نہیں کر سکے۔
فینسی گروپ اکتالیس صنعتیں تباہ کروا کے یوں ڈرا کہ اگلے چالیس سالوں میں اس نے صرف ایک فیکٹری لگائی ، وہ بھی بسکٹ کی۔
ہارون گروپ کی پچیس صنعتیں تھیں ، وہ اپنا کاروبار لے کر امریکا چلے گئے۔ آج پاکستان میں ان کے صرف دو یونٹ کام کر رہے ہیں۔ کاروباری خاندان ملک چھوڑ گئے یا پاکستان میں سرمایہ کاری سے تائب ہو گئے۔
ادھر بھٹو نے صنعتیں قبضے میں تو لے لیں لیکن چلا نہ سکے۔ان اداروں میں سیاسی کارکنوں کی فوج بھرتی کر دی گئی۔مزدور اب سرکار کے ملازم تھے ، کام کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ نتیجہ یہ نکلا ایک ہی سال میں قومیائی گئی صنعت کا 80 فیصد برباد ہو گیا۔ زرعی گروتھ کی شرح میں تین گنا کمی واقع ہوئی۔نوبت قرضوں تک آ گئی۔ جتنا قرض مشرقی اور مغربی یعنی متحدہ پاکستان نے اپنی پوری تاریخ میں لیا تھا اس سے زیادہ قرض بھٹو حکومت نے چند سالوں میں لے لیا۔ خطے میں سب سے زیادہ افراط زر پاکستان میں تھا۔ ادائیگیوں کے خسارے میں 795 فیصد اضافہ ہو گیا۔
سٹیٹ بنک ہر سال ایک رپورٹ پیش کرتا ہے۔ بھٹو نے چار سال سٹیٹ بنک کو یہ رپورٹ ہی پیش نہ کرنے دی تا کہ لوگوں کو علم ہی نہ ہو سکے کتنی تباہی ہو چکی۔
ہم بھی کیا لوگ ہیں؟
اپنی انڈسٹری اپنے ہاتھوں سے تباہ کر کے اب ہم چین کی منتیں کر رہے ہیں یہاں انڈسٹری لگائے۔
دنیا چالیس سال سے کمپیوٹر استعمال کر رہی ہے اور ہم آج تک ایک ماؤس نہیں بنا سکے
دنیا تیس سال سے موبائل فون استعمال کر رہی ہے اور ہم آج تک ایک چارجر نہیں بنا سکے
پاکستان کا خانہ خراب کرنے میں ذوالفقار علی بھٹو اور پیپلزپارٹی کا پورا پورا ہاتھ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کو ان سے کوئی ہمدردی نہیں.نہ دکھ ہے کسی کو ان کے مرنے پر۔۔۔ البتہ اتنا افسوس ضرور رہے گا کہ پاکستان کا لوٹا ہوا خزانہ واپس نہیں لیا جا سکے گا۔
رفیق سہگل بی بی سی کو انٹرویو دے رہے تھے۔ ان سے سوال کیا گیا کہ تمام بڑی صنعتوں کو قومی تحویل میں لیا جا رہا ہے، آپ کا کیا بنے گا؟ انھوں نے کہا سرمایہ دار حکومت کی ماں ہوتی ہے۔ اگر ماں ہی مر گئی تو بچے رل جائیں گے۔ ان کی یہ بات سچ ثابت ہوئی اور یہ پالیسی بری طرح ناکام ہوئی 5 جولائی 1977ء کو ضیاء الحق نے ذو الفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا ،جس کے ساتھ ہی مزید اداروں کو قومی تحویل میں لینے کا عمل رک گیا۔ ضیاء الحق کے دور میں اتفاق گروپ آف انڈسٹریز کے قومیائے گئے کارخانے شریف فیملی کو واپس دے دیے گئے۔[5]
22 جنوری 1991ء کو نوازشریف کی حکومت نے نجکاری پروگرام کا باقاعدہ آغاز کیا۔ حکومت جب صنعتی اور مالیاتی ادارے چلانے میں ناکام ہو جاتی ہے تو انھیں پرائیویٹ سیکٹر کے ہاتھوں بیچ دینے کے عمل کو نجکاری کہتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن)کی حکومت نے 1991-93ء کے عرصے میں 167 صنعتوں کی نجکاری کی ،جس سے 476 بلین روپے وصول ہوئے۔بے نظیر بھٹو کے دور میں صرف ان صنعتوں کی نجکاری ہوئی جو اقتصادی بد حالی کا شکار تھیں۔ کسی منافع بخش ادارے کو نجی شعبے کے حوالے نہیں کیا گیا۔2004ء میں شوکت عزیز وزیر اعظم مقرر ہوئے تو انھوں نے اقتصادی بحران پر قابو پانے کے لیے جو اقدامات کیے، ان میں نجکاری کا عمل بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ان کے دور اقتدار کے دوران 2007ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاکستان سٹیل ملز کی نجکاری کو روکنے کا حکم امتناعی جاری کیا[5]
2013ء میں نوازشریف مسلم لیگ کو تیسری بار حکومت کرنے کا موقع ملا۔ انھوں نے 31 اداروں کی فہرست تیار کی ہے،جنہیں نجی شعبے کے حوالے کیا جائے گا۔[5]
شوکت عزیز وزیر اعظم ے دور اقتدار کے دوران 2007ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاکستان سٹیل ملز کی نجکاری کو روکنے کا حکم امتناعی جاری کیا۔[5]
آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی نے 2015 میں 191 ارب روپے منافع کمایا ہے [5]
پاکستان سٹیٹ آئل کمپنی اربوں روپے کا منافع کما کر خزانے میں جمع کرا رہی ہے۔[5]
پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن پرویز مشرف کے دور میں عرب امارات کی کمپنی اتصالات کے حوالے کر دیا گیا[5]
کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کو سفید ہاتھی قرار دے کر نجی تحویل میں دے دیا گیا۔ ناقص انتظام کی وجہ سے یہ کمپنی بجلی کی سپلائی کو یقینی بنانے سے قاصر اور لوڈشیڈنگ کو ختم کرنے میں ناکام رہی ہے[5]
2015 میں پی آئی اے کی نجکاری پر عملے نے ہڑتال کر کے قومی ایئرلائن کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا۔ حکومت کا موقف ہے کہ یہ ادارہ اربوں روپے کا خسارہ دے رہا ہے، لہٰذا اسے نجی شعبے میں بیچ دیا جائے۔ اس خسارے کی وجہ گذشتہ حکومتوں کی اقربا پروری ہے۔ آج ایک طیارے کے ساتھ 500 ملازمین کا عملہ ہے، جبکہ بین الاقوامی ہوائی کمپنیاں ایک طیارے کے ساتھ 150بلکہ اس سے بھی کم ملازمین سے کام چلا رہی ہیں۔[5]
قومیانے کی پالیسیوں کے معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے اور ملک میں سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی۔ قومیانے کے پروگرام نے 22 اولیگارچ خاندانوں کو مالی طور پر تباہ کر دیا، جب کہ ایک سرمایہ کار نے کہا: "صنعت کاروں نے بھٹو کی قومیانے کی پالیسی سے نہ صرف صنعتی یونٹوں کو کھو دیا، بلکہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی خواہش بھی کھو بیٹھے۔" . بڑے متاثرین میں نواز شریف شامل تھے جنھوں نے بڑی سٹیل مل، اتفاق گروپ آف انڈسٹریز اور چوہدری شجاعت حسین کی گجرات انٹرپرائزز کو کھو دیا۔ [20] بھٹو کے نیشنلائزیشن پروگرام کے ذریعے تمام 25 شپنگ کمپنیوں کو پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن میں ضم کر دیا گیا تھا۔ احتجاج کرنے والوں کو حکومت نے جیلوں میں ڈال دیا۔ [20]
بین الاقوامی سطح پر، ریاستہائے متحدہ نے قومیانے کے پروگرام کی مکمل مخالفت کی اور اسے حکومت کے "غیر سمجھے جانے والے" فیصلے کے طور پر نشان زد کیا۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف ، جو قومیانے کے عمل سے متاثر ہیں، نے شدید تنقید کی اور قومیانے کے پروگرام کو "پاکستان کی افسوسناک حالت" قرار دیا۔ [21] دوسری طرف، امریکی سفارت خانے کے نامعلوم اور
گمنام افسر نے بعد میں مزید کہا کہ:
During Bhutto's five years in Pakistan's helm, Bhutto had retained an emotional hold on the poor masses who had votoed him overwhelmingly in 1970s general elections. At the same time, however, [B]hutto had many enemies. The [socialist economics] and nationalization of major private industries during his first two years on office had badly upsets the Business circles... An ill-considered decision to take over the wheat-milling, rice-husking, sugar mills, and cotton-gaining, industries in July of 1976 had angered the small business owners and traders. Both leftists— socilists and communists, intellectuals, students, and trade unionists— felt betrayed by Bhutto's shift to centre-right wing conservative economics policies and by his growing collaboration with powerful feudal lords, Pakistan's traditional power brokers. After 1976, Bhutto's aggressive authoritarian personal style and often high-handed way of dealing with political rivals, dissidents, and opponents had also alienated many....
—
دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے دانشوروں نے نیشنلائزیشن پروگرام کا بھرپور دفاع کیا۔ [22] پیپلز پارٹی کا موقف تھا کہ "قومی بنانے" کا پروگرام درحقیقت "کامیابی" تھا لیکن جس طرح سے اسے نافذ کیا گیا وہ اس کی ناکامی کا باعث بنا۔ [22] پیپلز پارٹی کے اراکین اور کابینہ کے افسران، جیسا کہ ڈاکٹر مبشر حسن، نے برقرار رکھا کہ نیشنلائزیشن پروگرام پارٹی پالیسی ہے اور 1967 میں پیپلز پارٹی کا بانی پروگرام "سوشلزم ہماری معیشت ہے" کی شق کے تحت تھا۔ [23] دوسرے اس دلیل کی حمایت کرتے ہیں کہ یہ پروگرام پاکستان کے لوگوں نے اس وقت دیا تھا جب انھوں نے 1970 کے عام انتخابات میں پی پی پی کو ووٹ دیا تھا اور پیپلز پارٹی کو قومیانے کی پالیسی کے کامیاب نفاذ پر فخر ہے اور یہ حقیقت ہے کہ قومیانے کے اقدامات کو 10 سال تک تحفظ فراہم کیا گیا۔ 1973 کا آئین [23]
1970 میں شروع کیے گئے، قومیانے کے پروگرام اس "خود شعور" اور "خود شناسی" کے اظہار کے عین مطابق تھے۔ قومیانے کے پروگرام نے معیشت کی اجارہ داری اور سیاست کو چند ہاتھوں کے نیچے مکمل طور پر ختم کر دیا جسے ڈرائنگ روم کی سیاست میں رکھا گیا تھا۔ [24] قومیانے کے پروگرام نے مزدوروں، تاجروں اور ورکرز یونینوں کو "خود آگاہی" فراہم کی اور کارکنوں کے حقوق اور کام کرنے کے لیے صحت مند محفوظ ماحول کے بارے میں مزید آگاہی دی، جیسا کہ سلیمان اختر نے برقرار رکھا۔ [24]
Under Nationalization programme, Zulfiqar Ali Bhutto gave hope and honour to Pakistan's poor and downtrodden people.