| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
قومی اسمبلی پاکستان کی کُل 342 نشستیں اکثریت کے لیے 172 درکار نشستیں | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
ٹرن آؤٹ | 55.02%[1] ( 11.01pp) | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
عام انتخابات کے نتائج[2] | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
|
سلسلہ مضامین سیاست و حکومت پاکستان |
آئین |
|
|
پاکستان کے عام انتخابات 2013ء، پاکستان کی قومی اسمبلی کے چودہویں انتخابات ہفتہ, مئی 11, 2013 کو ہوئے ۔ پاکستانی حکومت کے اعلان کے مطابق، انتخابات کی تاریخ 11 مئی 2013ء رکھی گئی۔ تاریخ کبھی 7 مئی، تو کبھی 15 مئی[3] کی بھی بتائی گئی۔ یہ انتخابات قومی اسمبلی، پارلیمان کے ایوان زیریں کی نشستوں اور چار صوبائی اسمبلیوں (پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا) کے اراکین کے انتخابات کے لیے پاکستان کے تمام انتخابی حلقوں میں انعقاد پزیر ہوئے تھے۔
گذشتہ حکومت کی مدت 16 مارچ 2013ء کو مکمل ہو چلی تھی اور اِس حکومت کو 2008ء کے عام انتخابات کے بعد 5 سال کا عرصہ بھی بِیت چُکا تھا۔ آئین کے آرٹیکل 52 کے تحت، 17 مارچ کو قومی اسمبلی کی تحلیل ہو گئی اور 19 مارچ کو صوبائی اسمبلیوں کی بھی تحلیل ہو گئی؛ چنانچہ اِسی آئین کے مطابق، اسمبلیوں کی تحلیل کے 60 دنوں بعد (یا 2 مہینوں بعد) [4] کے دورانئے میں ہی نئے انتخابات کا انعقاد ہو جانا چاہیے۔ 1962ء کے بعد یہ پاکستان کی تاریخ کے گیارہویں عام انتخابات ہیں اور ممکنہ طور پر پہلے ایسے انتخابات ہیں جہاں پاکستان کی دو منتخب حکومتوں کے درمیان میں جمہوری تبادلہ ہوتا ہوا دکھے گا۔
یہ انتخابات پاکستان پیپلز پارٹی کی تیسری منتخب حکومت کے اختتام کی نشان دہی کرتے ہیں اور چنانچہ اِس اعتبار سے یہ پاکستان کی وہ پہلی حکومت ٹھہری جس نے اپنی کُل جمہوری مُدّت پوری کی۔ اشتراکی جمہوری سوچ رکھنے والی پاکستان پیپلز پارٹی نے اس انتخاب کے لیے پاکستان مسلم لیگ (ق) سے اتحاد کیا؛ جبکہ قدامت پسند سوچ کی حامل پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پاکستان مسلم لیگ (ف) اور سنی تحریک سے اتحاد کا اظہار کیا۔ سابقہ کرکٹ کھلاڑی عمران خان کی قیادت میں اعتدال پسند پاکستان تحریک انصاف نے جماعت اسلامی اور بہاولپور قومی عوامی پارٹی سے اتحاد کیا۔
یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہے کہ تقریباً 8.6 کروڑ اندراج شدہ ووٹر قومی و صوبائی اسمبلیوں کے کم و بیش 1,000 اراکین کا انتخاب کریں گے۔ منتخب اراکین پھر قومی سطح پر وزیر اعظم کا اور صوبائی سطح پر ہر صوبے کے وزیر اعلیٰ کا انتخاب کریں گے۔
پاکستان کی سیاست برطانوی سیاست پر مبنی ہے اور جمہوری پارلیمانی نظام کے ویسٹ منسٹر ماڈل کی پیروی کرتی ہے۔ عالمگیر بالغ متادکار کے تحت اراکین کو ووٹوں کی اکثریت پر منتخب کیا جاتا ہے جہاں ہر نمائندہ ایک انتخابی ضلع کی نمائندگی کرتا ہے؛ اِن انتخابی اضلاع کو پارلیمانی حلقے بھی کہا جاتا ہے۔ آئین کے مطابق، خواتین اور مذہبی اقلیتوں کے لیے 70 نشستیں مخصوص کی جاتی ہیں۔ اِن نشستیں کو سیاسی جماعتوں کے لیے اِن کی متناسب نمائندگی کے مطابق مختص کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں انتخابات کی دوران میں کسی بھی سیاسی جماعت کو اکثریت حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اکثریت کے لیے کسی ایک جماعت کو قومی اسمبلی میں 172 نشستیں (یعنی کل نشستیں کا 51 فیصد) حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اگر یہ ممکن نہ ہو سکے تو پارلیمان کا موازنہ متردد ہو جاتا ہے اور سیاسی نمائندگان کو اتحادوں کا سہارا لینا پڑ جاتا ہے۔ ایسی پارلیمان کو ہنگ پارلیمان کہا جاتا ہے۔
انتخابات میں لڑنے والی جماعتوں کی فہرست کے لیے، مندرجہ ذیل ملاحظہ کیجیے۔
انتخابات سے پہلے، یہ ہر ووٹر شہری کی ذمہ داری تھی کہ وہ اپنے ووٹ کی بروقت تصدیق کر لیں اور اپنے منتخب پولنگ اسٹیشن کی نشان دہی کر لیں۔ ایسا ممکن بنانے کے لیے الیکشن کمیشن نے ایک مہم کا آغاز کیا۔ اس مہم کے ذریعے ایک عام فہم ووٹر اپنے موبائل فون سے نمبر 8300 پر ایس ایم ایس میں اپنا شناختی کارڈ نمبر ارسال کر کہ یہ معلوم کر سکتے تھے کہ آیا انکا نام ووٹنگ لسٹ پر موجود ہے یا نہیں اور ساتھ میں اپنے پولنگ اسٹیشن کا پتہ بھی جان سکتے تھے۔
انتخابات کے دن ہر حلقے کے لیے مخصوص پولنگ اسٹیشن صبح 8 بجے سے لے کر شام 5 بجے تک کھلے رہے۔ انتخابی عمل شروع ہونے سے پہلے ہی مندرجہ ذیل ہدایات الیکشن کمیشن نے ہر ووٹر تک پہنچا دین:
نگراں وفاقی وزیرِ اطلاعات عارف نظامی نے غیر ملکی ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے سیاسی جماعتوں کو نشانہ بنانا انتخابی عمل کا سب سے بڑا خطرہ ہے۔[10] دیگر انتخابی سرگرمیوں کے انعقاد سے قبل چیف الیکشن کمشنر جناب فخرالدیں جی ابراہیم نے اس خدشے کا اظہر کیا کے انتخابی عمل کے شفاف ہونے میں قانون کی بالادستی اور امن و امان کی صورت حال کا درست ہونا درکار ہے۔[11] کراچی شہر میں دیگر دہشت گردی کے واقعات کے بعد متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی منظم طور پر اپنی اپنی مہم کو نہ چلا سکیں۔
عالمی ادارہ برائے انعقاد انتخابات نے 16 عالمی تنظیموں کی جانب سے مرتب کردہ 32 نکات پر مشتمل ترجیحات و اصلاحات الیکشن کمیشن پاکستان کے لیے مختص کیں۔[26] 2006ء میں اِس ادارے نے امریکی ترقیاتی ادارے یو ایس ایڈ کی مدد سے حکومت پاکستان کو 9 ملین ڈالر کی خطیر رقم فراہم کی۔ اِس رقم سے پاکستان میں کمپیوٹرائزد انتخابی عمل کا قیام ممکن بنایا گیا۔[27] اِس کمپیوٹرائزد نظام کو "ریزلٹ مینجمنٹ سسٹم" کا نام دیا گیا۔
2008ء کے انتخابات میں تو الیکشن کمیشن کُچھ خاص خدمات انجام نہ دے سکا؛ البتہ، 2008 تا 2013ء حکومت میں اِس الیکشن کمیشن کو خوب اختیارات ملے جس کی وجہ سے پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی دفعہ تھا کے ایک الیکشن کمیشن اتنا خود مختار اور آزاد ادارہ بن کر اُبھرا۔
مارچ 2013ء کے مہینے میں ہی الیکشن کمیشن نے آئندہ عام انتخابات کے لیے اپنی حتمی تیاریوں کو اختتام تک پہنچایا۔ اِن تیاریوں میں سب سے اہم کام 500,000 بیلٹ بکسوں اور انتخابات سے متعلقہ مواد کا حصول تھا۔ کمیشن نے انتخابات سے متعلق مقدمات کو تیزی سے نمٹانے کے لیے مستقل طور پر الیکشن ٹربیونل قائم کیے۔ اِن الیکشن ٹربیونلوں کے لیے کمیشن نے ہائی کورٹ کے دیگر ریٹائرڈ جج حضرات کی خدمات لینے کا بھی فیصلہ کیا۔ اِن میں پانچ ٹربیونل صوبۂ پنجاب کے لیے اور بقیہ صوبوں کے لیے تین تین ٹربیونل کا قیام کیا گیا۔ الیکشن ٹربیونل کی خدمات کے لیے الیکشن کمیشن نے کئی شہروں میں عمارتیں بھی کرائے پر حاصل کیں۔
الیکشن کمیشن کے فرائض میں ایک اہم فرض پولنگ اسٹیشنوں پر انتخابات کے دن سے متعلق منصوبہ بندی کرنا بھی شامل تھا۔ الیکشن کمیشن نے دیگر پولنگ سٹیشنوں کی نشان دہی کی اور بیشمار پولنگ اسٹیشنوں کو حساس قرار دیتے ہوئے وہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تعیناتی کو یقینی بنایا۔
# | انتخابی صوبہ | حساس ترین اسٹیشن | حساس اسٹیشن | معمولی اسٹیشن | کُل تعداد بلحاظ صوبہ |
---|---|---|---|---|---|
1 | خیبر پختونخوا | 2,140 | 3,410 | 3,756 | 9,306 |
2 | قبائلی علاقہ جات | 243 | 385 | 580 | 1,208 |
3 | وفاق | 12 | 18 | 518 | 548 |
4 | پنجاب | 8,439 | 4,463 | 27,106 | 40,008 |
5 | سندھ | 3,064 | 5,702 | 6,214 | 14,980 |
6 | بلوچستان | 1,783 | 1,236 | 660 | 3,679 |
کُل اسٹیشنوں کی تعداد | 15,681 | 15,214 | 38,834 | 69,729 |
قبل از 2013ء انتخابات، ووٹوں کی گنتی کے بعد کے اعداد و شمار کو ایک کاغذی پرچی پر لکھا جاتا تھا۔ اِس طریقے کو استعمال کر کے تبدیلی کے ذریعے ممکنہ داھاندلی کی گنجائش موجود رہتی تھی۔ 2013ء کے انتخابات میں الیکشن کمیشن نے مخصوص پریسکرپشں فارم متعارف کرائے جن پر اعداد و شمار درج کیے جائیں گے۔ ایک دفعہ جب اِن فارموں پر اعداد درج کر دیے جائیں گے تب اِن میں تبدیلی کرنا ناممکن ہو جائے گا۔ اِن فارموں کو بھرنے کے بعد اِن کی ایک کاپی کو پولنگ اسٹیشن کے باہر چسپاں کیا جائے گا اور ایک کاپی کو الیکشن کمیشن ارسال کر دیا جائے گا۔ ارسال ہونے والی کاپی کو پلاسٹک کے ایک خاص شفاف لفافے میں ڈالا جائے گا جس کے ساتھ دست اندازی کرنا ممکن نہیں ہے۔ یہ لفافے الیکشن کمیشن نے یو این ڈی پی کے تعاون سے حاصل کیے۔
آئین کے مطابق، گذشتہ حکومت اور پارلیمان کی مدت کے گذر جانے پر ایک نگران حکومت کو نافذ کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ چنانچہ، انتخابات سے قبل جب اسمبلیوں کی تحلیل کی جا رہی تھی تو ایک نگران حکومت کا قیام بھی کیا گیا۔ حکومت اور حزبِ اختلاف میں بیٹھی پارٹیوں سے مشاورت کے بعد، 24 مارچ 2013ء کو الیکشن کمیشن نے سابقہ جج اور سیاست دان میر ہزار خان کھوسو کو عبوری وزیر اعظم مقرر کر دیا۔
مندرجہ ذیل پاکستان کے تمام اضلاع کے رائے دہندگان کی تعداد کی ایک مکمل فہرست ہے۔
# | انتخابی صوبہ | رائے دہندگان | کُل تعداد | فیصدی | |
---|---|---|---|---|---|
مردانہ | زنانہ | ||||
1 | خیبر پختونخوا | 7,008,533 | 5,257,624 | 12,266,157 | 14.23% |
2 | قبائلی علاقہ جات | 1,142,234 | 596,079 | 1,738,313 | 02.02% |
3 | وفاقی علاقہ | 337,900 | 288,064 | 625,964 | 00.73% |
4 | پنجاب | 27,697,701 | 21,561,633 | 49,259,334 | 56.76% |
5 | سندھ | 10,490,631 | 8,472,744 | 18,963,375 | 22.00% |
6 | بلوچستان | 1,915,388 | 56,387 | 3,336,659 | 03.87% |
کُل رائے دہندگان | 48,592,387 | 37,597,415 | 86,189,802 | 100.00% |
صوبہ | ضلع | رائے دہندگان |
---|---|---|
خیبر پختونخوا | ایبٹ آباد | 675,188 |
خیبر پختونخوا | بنوں | 444,059 |
خیبر پختونخوا | بٹگرام | 204,980 |
خیبر پختونخوا | بونیر | 360,019 |
خیبر پختونخوا | چارسدہ | 704,680 |
خیبر پختونخوا | چترال | 206,909 |
خیبر پختونخوا | ڈیرہ اسماعیل خان | 606,959 |
خیبر پختونخوا | ہنگو | 214,703 |
خیبر پختونخوا | ہری پور | 531,866 |
خیبر پختونخوا | کرک | 315,087 |
خیبر پختونخوا | کوہاٹ | 409,372 |
خیبر پختونخوا | کوہستان | 127,015 |
خیبر پختونخوا | لکی مروت | 330,274 |
خیبر پختونخوا | دیر زیریں | 541,565 |
خیبر پختونخوا | مالاکنڈ | 311,172 |
خیبر پختونخوا | مانسہرہ | 742,674 |
خیبر پختونخوا | مردان | 987,122 |
خیبر پختونخوا | نوشہرہ | 619,914 |
خیبر پختونخوا | پشاور | 1,393,144 |
خیبر پختونخوا | شانگلہ | 296,722 |
خیبر پختونخوا | صوابی | 714,454 |
خیبر پختونخوا | سوات | 981,823 |
خیبر پختونخوا | ٹانک | 150,585 |
خیبر پختونخوا | تور غر | 64,867 |
خیبر پختونخوا | دیر بالا | 331,004 |
قبائلی علاقہ جات | باجوڑ ایجنسی | 353,554 |
قبائلی علاقہ جات | قبائلی بنوں | 9,482 |
قبائلی علاقہ جات | قبائلی ڈیرہ اسماعیل خان | 22,269 |
قبائلی علاقہ جات | قبائلی کوہاٹ | 41,070 |
قبائلی علاقہ جات | قبائلی لکی مروت | 9,939 |
قبائلی علاقہ جات | قبائلی پشاور | 23,371 |
قبائلی علاقہ جات | قبائلی ٹانک | 15,581 |
قبائلی علاقہ جات | خیبر ایجنسی | 336,763 |
قبائلی علاقہ جات | کرم ایجنسی | 262,021 |
قبائلی علاقہ جات | مہمند ایجنسی | 177,244 |
قبائلی علاقہ جات | شمالی وزیرستان | 160,666 |
قبائلی علاقہ جات | اورکزئی ایجنسی | 125,687 |
قبائلی علاقہ جات | جنوبی وزیرستان | 200,666 |
پنجاب | اٹک | 1,022,180 |
پنجاب | بہاولنگر | 1,264,077 |
پنجاب | بہاولپور | 1,522,061 |
پنجاب | بھکر | 711,837 |
پنجاب | چکوال | 929,747 |
پنجاب | چنیوٹ | 602,290 |
پنجاب | ڈيرہ غازى خان | 1,052,720 |
پنجاب | فیصل آباد | 3,622,748 |
پنجاب | گوجرانوالہ | 2,273,141 |
پنجاب | گجرات | 1,581,402 |
پنجاب | حافظ آباد | 543,646 |
پنجاب | جھنگ | 1,145,415 |
پنجاب | جہلم | 783,571 |
پنجاب | قصور | 1,463,575 |
پنجاب | خانیوال | 1,301,926 |
پنجاب | خوشاب | 680,471 |
پنجاب | لاہور | 4,410,095 |
پنجاب | لیہ | 736,509 |
پنجاب | لودھراں | 727,177 |
پنجاب | منڈی بہاؤالدین | 815,154 |
پنجاب | میانوالی | 757,191 |
پنجاب | ملتان | 2,110,177 |
پنجاب | مظفر گڑھ | 1,681,436 |
پنجاب | ننکانہ صاحب | 623,625 |
پنجاب | نارووال | 792,379 |
پنجاب | اوکاڑہ | 1,396,811 |
پنجاب | پاکپتن | 823,478 |
پنجاب | رحیم یار خان | 1,904,615 |
پنجاب | راجن پور | 724,286 |
پنجاب | راولپنڈی | 2,645,608 |
پنجاب | ساہیوال | 1,190,424 |
پنجاب | سرگودھا | 1,861,804 |
پنجاب | شیخوپورہ | 1,341,341 |
پنجاب | سیالکوٹ | 1,841,347 |
پنجاب | ٹوبہ ٹیک سنگھ | 1,089,508 |
پنجاب | وہاڑی | 1,285,562 |
سندھ | بدین | 639,314 |
سندھ | دادو | 609,609 |
سندھ | گھوٹکی | 568,065 |
سندھ | حیدرآباد | 923,140 |
سندھ | جیکب آباد | 394,557 |
سندھ | جامشورو | 369,424 |
سندھ | قمبر-شہدادکوٹ | 508,062 |
سندھ | کراچی وسطی | 1,632,487 |
سندھ | کراچی شرقی | 2,093,898 |
سندھ | کراچی جنوبی | 1,131,376 |
سندھ | کراچی غربی | 1,493,055 |
سندھ | کشمور | 353,616 |
سندھ | خیرپور | 838,502 |
سندھ | لاڑکانہ | 585,519 |
سندھ | ملیر | 820,421 |
سندھ | مٹیاری | 300,486 |
سندھ | میرپور خاص | 585,262 |
سندھ | نوشہرو فیروز | 600,090 |
سندھ | سانگھڑ | 793,397 |
سندھ | نواب شاہ | 668,193 |
سندھ | شکارپور | 488,878 |
سندھ | سکھر | 527,635 |
سندھ | ٹنڈو الہ یار | 286,956 |
سندھ | ٹنڈو محمد خان | 230,554 |
سندھ | تھرپارکر | 471,831 |
سندھ | ٹھٹہ | 663,543 |
سندھ | عمرکوٹ | 385,505 |
بلوچستان | آواران | 56,387 |
بلوچستان | بارخان | 55,327 |
بلوچستان | چاغی | 66,836 |
بلوچستان | ڈیرہ بگٹی | 63,953 |
بلوچستان | گوادر | 93,650 |
بلوچستان | ہرنائی | 33,140 |
بلوچستان | جعفر آباد | 247,316 |
بلوچستان | جھل مگسی | 44,533 |
بلوچستان | کچھی | 103,108 |
بلوچستان | قلات | 104,445 |
بلوچستان | کیچ | 173,972 |
بلوچستان | خاران | 45,176 |
بلوچستان | خضدار | 165,593 |
بلوچستان | قلعہ عبداللہ | 184,832 |
بلوچستان | قلعہ سیف اللہ | 88,424 |
بلوچستان | کوہلو | 38,624 |
بلوچستان | لسبیلہ | 182,697 |
بلوچستان | لورالائی | 107,028 |
بلوچستان | مستونگ | 80,118 |
بلوچستان | موسیٰ خیل | 51,864 |
بلوچستان | نصیر آباد | 162,349 |
بلوچستان | نوشکی | 61,878 |
بلوچستان | پنجگور | 74,751 |
بلوچستان | پشین | 196,859 |
بلوچستان | کوئٹہ | 559,939 |
بلوچستان | شیرانی | 31,837 |
بلوچستان | سبی | 75,832 |
بلوچستان | واشک | 38,171 |
بلوچستان | ژوب | 96,278 |
بلوچستان | زیارت | 51,742 |
الیکشن کمیشن نے انتخابات کے آخری مراحل میں ہی انتخابی عمل میں ایک گھنٹہ بڑھا دیا؛ اس پر کافی جماعتوں نے احتجاج بھی درج کروایا کیونکہ اس وقت تک انتخابات کے غیر حتمی نتائج میڈیا کے ذریعہ نشر ہونا شروع ہو گئے تھے۔[حوالہ درکار]
مجموعی طور پر انتخابی عمل پرامن رہا ماسوائ چند مقامات کے جہاں تشدد کی کارروائیاں ہوئیں یا پھر دھاندلی کی شکایات اور ثبوت و شواہد ملے۔ الیکشن کمیشن کو سب سے زیادہ شکایات حلقہ این اے۔250 سے ملیں اور ساتھ میں 40 سے زائد اور مقامات پر پولنگ ملتوی کر کہ 18 مئی 2013ء کو رکھ دی گئی۔[حوالہ درکار]