پاکستانی قانون شہریت | |
---|---|
مجلس شوریٰ پاکستان | |
پاکستانی شہریت سے متعلق قانون | |
نفاذ بذریعہ | حکومت پاکستان |
صورت حال: قانون سازی جاری |
پاکستانی قانونِ شہریت اسلامی جمہوریہ پاکستان کی شہریت کا تعین کرتا ہے۔ اس سلسلے میں بنیادی قانون 13 اپریل 1951ء کو پاکستان کی آئین ساز اسمبلی نے منظور کیا تھا۔ جب کمبوڈیا نے اپنی شہریت کے قانون میں تبدیلی کی تو پاکستان ایشیا کا واحد ملک بچ گیا ہے جہاں پیدائش پر شہریت ملتی ہے۔[1]
پاکستان کے قیام سے قبل یہ برطانوی ہندوستانی سلطنت کا حصہ تھا اور اس کے باسی برطانوی رعیت شمار ہوتے تھے۔ پاکستان کا قیام 14 اگست 1947ء کو عمل میں آیا اور اسے مسلمانوں کی ریاست کہا گیا اور اس کا درجہ برطانوی دولتِ مشترکہ میں ڈومنین کا تھا۔ تب موجودہ بنگلہ دیش بھی پاکستان کا حصہ تھا اور اسے مشرقی پاکستان اور مشرقی بنگال کہا جاتا تھا۔ بنگلہ دیش 1971ء میں پاکستان سے الگ ہوا۔ برطانوی راج سے آزادی کے بعد لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں نے بھارت سے پاکستان کا جبکہ لاکھوں ہندوؤں اور سکھوں نے پاکستان سے بھارت کا رخ کیا اور شہریت کے حوالے سے کافی مسائل کھڑے ہو گئے۔
پاکستانی قانون برائے شہریت 13 اپریل 1951ء میں نافذ العمل ہوا اور اس کا مقصد پاکستانی شہریت کا تعین کرنا ہے۔[2] بعد ازاں اس قانون میں کئی بار تبدیلیاں کی گئی ہیں اور آخری ترمیم 2000ء میں کی گئی۔ اس قانون کے 23 حصے ہیں اور ہر ایک میں شہریت کے لیے مختلف شرائط درج ہیں۔ ان میں سے اہم تر درجِ ذیل ہیں۔
اس قانون کے نفاذ کی تاریخ پر شہریت کی صورت حال؛
یا
پاکستانی شہری دولت مشترکہ کے بھی شہری ہیں۔
آزادی کے بعد بیرونِ ملک بالخصوص مشرقِ وسطیٰ، یورپ اور شمالی امریکا میں آباد پاکستانیوں کی تعداد بڑھتی جار ہی ہے اور اسی وجہ سے قانون میں درجِ ذیل تبدیلی لائی گئی ہے جس کے تحت مخصوص حالات میں دہری شہریت کی اجازت ہے:[3]
دوہری شہریت کے حامل پاکستانیوں پر عوامی عہدہ رکھنے، اسمبلی میں بیٹھنے،[5] انتخاب لڑنے یا عسکریہ پاکستان میں شامل ہونے کی ممانعت ہے۔[6] 20 ستمبر 2012ء کو عدالت عظمیٰ پاکستان نے 11 قانون سازوں کو نااہل قرار دیا جن میں وزیرِ داخلہ رحمان ملک بھی شامل تھے۔ یہ افراد اپنی دوہری شہریت مخفی رکھنے کے مجرم ثابت ہوئے تھے۔آئین پاکستان کی 21ویں ترمیم کے تحت دوہری شہریت والے افراد انتخاب بھی لڑ سکنے اور عوامی عہدہ رکھنے کے بھی قابل ہو سکتے تھے مگر یہ ترمیم منظور نہیں ہو پائی۔[7] 16 دسمبر 2013ء کو پاکستانی ایوانِ بالا یعنی سینیٹ نے بل منظور کیا کہ گریڈ 20 یا اس سے اوپر والے تمام افسران کے لیے دوہری شہریت کی اجازت نہیں۔ پھر اس پر ایوانِ زیریں میں بحث ہونی ہے اور اگر یہ بل وہاں سے بھی منظور ہو گیا تو صدر پاکستان کے دستخط کے بعد قانون بن جائے گا۔[8]
کشمیر کا علاقہ پاکستان اور بھارت کے درمیان میں تنازعے کی حیثیت رکھتا ہے جس کی وجہ سے دونوں ممالک میں کئی بار جنگ بھی ہو چکی ہے۔ پاکستانی شہریت کے ایکٹ 1951ء کے مطابق جموں اور کشمیر کے افراد پاکستانی پاسپورٹ پر سفر کر سکتے ہیں۔[9]
1971ء میں بنگلہ دیش کے قیام کے بعد لگ بھگ پانچ لاکھ افراد جن کا ریاست بہار سے تعلق تھا، کو اکیلا چھوڑ دیا گیا۔ تمام تر وعدوں کے باوجود بنگلہ دیش ایسے افراد کو اپنا شہری تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے۔ بنگلہ دیش کے قیام سے قبل وہاں غیر قانونی طور پر مقیم افراد 10 ہزار تھے جبکہ علیحدگی کے بعد اس میں متواتر اضافہ ہوتا گیا اور 1995ء میں یہ تعداد بڑھ کر سولہ لاکھ ہو گئی۔ چونکہ یہ افراد بنگلہ دیش کے قیام کے بعد آئے تھے اس لیے انھیں شہریت کا حق حاصل نہیں۔
سیاسی اور دیگر مقاصد کے تحت پندرہ لاکھ افغان[10] جو پاکستان میں پناہ گزین کے طور پر مقیم ہیں، کو بھی پاکستانی شہریت نہیں دی گئی حالانکہ ان کی اکثریت پاکستان میں ہی پیدا ہوئی تھی۔[11]
2018ء میں پاکستانی پاس پورٹ کے حامل افراد کو 36 ممالک میں ویزے کے بغیر، برقی ویزے یا آمد پر ویزہ کی سہولت حاصل تھی جس کی وجہ سے پاکستانی پاس پورٹ کو 197واں درجہ دیا گیا۔
{{حوالہ ویب}}
: الوسيط غير المعروف |deadurl=
تم تجاهله (معاونت)اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: آرکائیو کا عنوان (link)