پدریت کا دھوکا، جسے برخطا منسوب پدریت (انگریزی: Paternity fraud یا misattributed paternity) بھی کہا جاتا ہے،[1] ایک طرح کا دھوکا ہے جو کسی غیر پدریتی صورت حال میں، ایک ماں کسی آدمی کو اپنی اولاد کا باپ قرار دیتی ہے، حالانگہ وہ اس بات سے بہ خوبی واقف ہے یا اسے خود اس بات پر شک ہے کہ یہ شخص اس کی اولاد کا حیاتیاتی باپ نہیں ہے۔ پدریت کا جدید تصور زنا تاریخی سمجھ سے تعلق رکھتا ہے۔
2016ء میں چھپنے والی تجقیق کے مطابق برطانیہ میں ہر پچاس میں سے ایک باپ ایک ایسے بچے کی پرورش کر رہا ہے جس کے بارے میں اس کا تصور ہے کہ وہ اس کے خود کا ہے مگر فی الحقیقت یہ بچہ کسی دوسرے آدمی کی حیاتیاتی اولاد ہے اور اس بچے کی ولادت دراصل برطانوی معاشرے میں بڑے پیمانے میں پھیلی ہوئی زنانہ بے وفائی دکھاتی ہے، جو 30 سال سے کم عمر عورتوں میں 5 سے 27% فی صد پائی گئی ہے۔[2]
2005ء میں ایک سائنسی جریدے نے پدرانہ بے جا منسوبیت کو عالمی رجحان سے جوڑ دیا اور اس کے اعداد و شمار کو 0.8% سے 30% بتائے (جب کہ اوسط طور یہ 3.7%) ہے۔[3] تاہم چوں کہ بیش تر مطالعات 1950ء کے دہے اور 1980ء کے دہے کے بیچ ہوئے تھے، کچھ اعداد و شمار قابل اعتبار نہیں بتائے گئے ہیں کیوں کہ سائنسی آزمائشی طریقے جو اس وقت استعمال ہوئے تھے وہ اطمینان بخش نہیں تھے۔ تازہ ترین اعداد و شمار جو 1991ء سے 1999ء کے بیچ کے دست یاب ہوئے ہیں، اس قسم کے واقعات کی شرحیں اس طرح ہیں: کینیڈا (4.0%)، فرانس (2.8%)، مملکت متحدہ (1.6%)، میکسیکو (11.8%) اور سویٹزرلینڈ (0.8%)[3] ان اعداد و شمار یہ غیر پدرانہ صورت حال کے لیے 10% کا زباب زد عام تصور سچائی سے بڑھا ہوا تخمینہ ہے۔ تاہم ممکن ہے کہ یہ عدد غیر صحیح ہو کر بھی زیر دوران میں رہا ہے اور اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے: ان مطالعات میں جہاں صرف ان جوڑوں کو دیکھا گیا جو پدریت کے امتحان سے گذرے ہیں کیوں کہ پدریت متنازع رہی ہے، وہاں یہ سطحیں بڑھی ہوئی ہیں: 17% سے برھ کر 33% (اوسطًا 26.9%)۔ زیادہ تر خطرہ ان بچوں سے تعلق رکھتا ہے جو تازہ ترین طور پر جواں سال ماں باپ بنے یا وہ غیر شادی شدہ جوڑے ہیں یا پھر سماج کے معاشی طور نچلے طبقوں سے ہیں۔ کچھ ثقافتی زمرہ میں بھی زیادہ پایا گیا ہے۔[4]
بھارت جیسے ترقی پزیر ملک میں بھی یہ ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے جہاں ایک ایسے واقعات بھی رو نما ہوئے ہیں کہ ایک آدمی یہ پاتا ہے اس کے سارے بچے کسی اور آدمی کے پیدا کردہ ہیں۔[5]