پھلکاری

پٹیالہ کی پھلکاری

پھلکاری اک طرح کی کڑھائی ہوتی ہے جو چنیوں/دوپٹوں پر دستی کی جاتی ہے۔ پھلکاری لفظ "پھلّ" پر "کاری" سے بنا ہے جس کا مطلب پھولوں پر کاریگری ہے۔ پہلے پہل یہ لفظ ہر طرح کی کڑھائی کے لیے استعمال ہوتا رہا، لیکن بعد میں یہ شالوں، سر پر لی جانے والی چادروں کے لیے مختص ہو گیا۔

پس منظر

[ترمیم]

دور قدیم میں بچپن میں ہی بیٹیوں کو سینے پرونے، کھانا پکانے کے علاوہ کڑھائی کا کام بھی سکھایا جاتا تھا۔ خواتین اس کام میں ماہر ہوتیں۔ پنجابی سماج میں لڑکی کو شادی کے وقت دیے جانے والے سامان میں سے کئی اشیا دلہن خود ہاتھوں سے تیار کیا کرتی۔ یہ اس کی خوبیوں کا ثبوت ہوتا تھا۔ اپنے دل کا حال، جذبات کا اظہار وہ کھل کر نہیں کر سکتی تھی۔ اپنے جذبات کا اظہار وہ کڑھائی میں کرتیں۔ کسی رومال، چادر، پھلکاری پر رنگ برنگے دھاگوں سے بنائے پھلّ، چونچ لڑاتے پرندے، ہرن کے جھتے اس کے پیار کا اظہار ہوتا، اکیلی کونج، اکیلا درخت تنہائی کا اظہار تھا۔

مجموعی جائزہ

[ترمیم]

پنجاب اس پھلکاری کے لیے جانا جاتا ہے۔ کشیدہ کاری ہاتھ بنے ہوئے کھردرے سوتی کپڑے پر فلاس ریشمی دھاگے کے ساتھ کی جاتی ہے۔ کشیدہ کاری سے پھلکاری کا یہ عمل خطوط مستقیم، مثلثوں، دائروں یا مماثل باقاعدہ اشکال سے کیا جاتا ہے۔

پھکاری اور باغ کا استعمال خطۂ پنجاب میں خواتین شادی بیاہ اور دیگر خوشی کے مواقع پر کرتی ہیں۔ یہ ان کے اور خاندان کے دیگر ارکان کے استعمال کے لیے تیار کیے جاتے ہیں، بازار میں فروخت کے لیے پیش نہیں کیے جاتے۔ یوں، یہ مکمل طور پر ایک گھریلو فن بن جاتا ہے جو ان کی خانگی زندگی کی تسکین کا سامان ہوتا ہے۔ ایک طرح سے، یہ ایک حقیقی لوک فن ہے۔ اپنی مرضی کے مطابق پھلکاری اور باغ دلہنیں شادی کے موقع پر خود تیار کرتیں۔ باغ کشیدہ کاری ضلع ہزارہ،[1] پشاور،[1] سیالکوٹ،[1] جہلم،[1] راولپنڈی،[1] ملتان،[1] امرتسر،[1] جالندھر،[1] انبالہ،[1] لدھیانہ،[1] نبہا،[1] جند،[1] فرید کوٹ،[1] کپور تھلہ[1] اور چکوال خطۂ پنجاب میں تیار کی جاتی ہے۔ باغ اور پھلکاری کشیدہ کاری گجراتی کشیدہ کاری سے متاثر ہے جو 'ہیر بھارت کے نام سے جانی جاتی ہے۔[2]

وسط ایشیا میں جاٹ قبائل جنھوں نے بھارت کی طرف ہجرت کی اور پنجاب، ہریانہ اور گجرات میں آباد ہوئے۔ ان کے لوگ گیتوں میں اور وید، مہا بھارت، گرنتھ صاحب اور پنجاب کے لوک گیت میں پھلکاری کا حوالہ ملتا ہے۔ اپنی موجودہ شکل میں، پھکاری کشیدہ کاری پندرہویں صدی سے مقبول ہے۔[3]

استعمال

[ترمیم]
  • ان کا استعمال شادی و دیگر خوشی کے مواقع پر کیا جاتا۔
  • شگناں کے مواقع پر لوگ پھلکاریاں ہی استعمال کیا کرتے۔
  • لوگ جہیز میں بیٹیوں کو پھلکاریاں کے باغ دیتے۔ یہ پھلکاریاں نانیوں، دادیوں اور آگے نسل در نسل منتقل ہوتی رہتیں۔
  • شادی کی رسموں رواجوں میں جیسے چوڑا چڑھانے کے وقت نانی اپنی نواسی کو چوپ پہناتی۔ چوپ کو پھلکاری سے تھوڑا بڑا ہوتا تھا۔

لوک گیتوں میں

[ترمیم]
پنجابی پھلکاری, پنجاب، بھارت، بیسویں صدی
دپھلکاری انیسویں صدی

پھلکاری سے پنجابی خواتیں اتنی جڑی ہوتی تھیں کہ، اس دور کے لوک گیتوں میں اس کا ذکر ملتا ہے۔[4]

پھلکاری میری ریشمی رنگ ڈھکائے ٹھیک
چھیتی درشن دیونے،میں رستے رہی اڈیک
ویر میرے نے کڑتی بھیجی، بھابو نے پھلکاری،
نیں جگّ-جگّ جی بھابو، لگے ویر توں پیاری۔
مینوں تاں کہندا کڈھن نیں جاندی، کتن نیں جاندی۔
میں کڈھ لئی پھلکاری، وے جد میں اتے لئی
تیں ہونگر کیوں ماری۔

ایسے وقت میں بوڑھی دادی سر ’پر پھلکاری لیے نظر آتی،

کتے اپنے سر ’تے اپنے سائیں دا بھتا چکی
جاندی مٹیار دی پھلکاری واجاں ماردی
اگے-اگے میں ٹردی، میرے ٹردے نے مگر شکاری،
ہوا وچّ اڈدی پھرے، میری تتراں والی پھلکاری

مزید دیکھیے

[ترمیم]

حوال جات

[ترمیم]
  1. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ ر​ Sukaadas (1992) Fabric Art: Heritage of India
  2. Naik، Shailaja D. (1996) Traditional Embroideries of India
  3. "Phulkari embroidery"۔ 04 جون 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جولا‎ئی 2016 
  4. شوہدر سنگھ بیدی، پنجاب دی لوکدھارا، نیشنل بکّ ٹرسٹ، دہلی

بیرونی روابط

[ترمیم]