چترالی زبان کے مخصوص حروف | ||
---|---|---|
عربی_رسم_الخط میں کھوار (نویسہ: نستعلیق) | ||
تلفظ | [khowar:] | |
مستعمل | پاکستان، ہندوستان، افعانستان (چین کھوار) | |
خطہ | جنوبی ایشیاء | |
کل متتکلمین | — | |
خاندان_زبان | ہند۔یورپی
| |
نظام کتابت | کھوار ابجد (نستعلیق، نسخ) | |
باضابطہ حیثیت | ||
باضابطہ زبان | پاکستان | |
نظمیت از | کھوار اکیڈمی (پاکستان) اکادمی برائے ترقیِ چترالی زبانیں (چترال) پاکستان | |
رموزِ زبان | ||
آئیسو 639-1 | khw | |
آئیسو 639-2 | khw | |
آئیسو 639-3 | khw | |
یادآوری: اس صفحے پر یکرمز میں IPA کی صوتی علامات استعمال ہوسکتی ہیں۔ |
چترالی زبان جسے کھوار بھی کہا جاتا ہے نے اردو کے سارے حروف کو من وعن اپنے اندر جگہ دی ہے لیکن اس زبان کی اپنی مخصوص آوازیں بھی ہیں جن کی ادایگی اردو حروف سے ممکن نہیں تھی اس لیے کھوار اکیڈمی نے اس زبان کے مخصوص حروف کے لیے یونی کوڈ بنانے ہیں۔ چترالی زبان وطن عزیز پاکستان کے شمالی علاقہ جات، سوات اور چترال میں بولی جاتی ہے، گو کہ شمالی پاکستان میں کھوار، شینا، وخی، بروشسکی، ڈومکی، پھالولہ، کالاشہ، یدغہ، بلتی اور دامیڑی کے علاوہ مزید آٹھ زبانیں بولی جاتی ہیں اور چترالی زبان کی طرح یہ ساری زبانیں قریب المرگ ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان زبانوں کے بولنے والوں نے اپنی زبانوں کو چھوڑ کر اردو کو ذریعہ اظہار بنایا ہوا ہے اور اردو میں شاعری اور نثر تخلیق کر رہے ہیں تحقیق کے دوران پتہ چلا کہ یہاں پر مقامی زبان میں کوئی اخبار یا رسالہ نہیں نکلتا بلکہ سارے اخبارات و جریدے اردو میں شایع ہو رہے ہیں۔ کسی بھی مقامی قلم کار نے ان زبانوں کے فروع کے لیے کام نہیں کیا۔ چترال اور شمالی علاقہ جات کی زبانوں پر جو بھی تحقیقی کام موجود ہے وہ سارا کا سارا انگریزی میں ہے اور یہ کام ہر ایک کی دسترس سے باہر ہے اور مستشرقین کا ان علاقوں کی زبانوں پر کیا گیا تحقیقی کام ایک کوشش ضرور ہے لیکن اس کام کو بنیاد بناکر ان زبانوں میں رومن میں ادب تخلیق نہیں کیا جا سکتا کیونکہ رومن طرز تحریر ان زبانوں کے لیے مناسب نہیں اس لیے ان علاقوں میں بولی جانے والی زبانوں کے لیے فارسی رسم الخط میں حروف تہجی بنانے کی ضرورت تھی اس ضرورت کے پیش نظر راقم الحروف نے چترالی زبان کے لیے حروف تہجی وضع کیے ہیں میرے وضع کردہ چترالی حروف مندرجہ زیل ہیں چترالی کے مخصوص حروف کے لیے میں نے اردو، عربی، فارسی اور کھوار زبان کے حروف تہجی کو سامنے رکھ کر حروف وضع کیے ہیں اور میں نے ھمزہ 'ء' کو بھی چترالی، کھوار، وخی،شینا، کالاشہ اور بروشسکی کا حرف قرار دیا ہے لیکن شمالی اور چترالی اہل قلم 'ء' کو الگ حرف نہیں مانتے لیکن کھوار اکیڈمی کے شمالی زبانوں کے لیے وضع کردہ حروف تہجی میں 'ء' کوالگ حرف تسلیم کر لیا گیا ہے۔ ھمزہ 'ء' شمالی اور چترالی زبانوں میں مندرجہ زیل الفاظ میں موجود ہے۔ مثلاً "آئندہ"، "آئین" اور دائرہ وغیرہ۔ چترالی زبان میں نون کی تین شکلیں ہیں جو یہ ہیں ن، ں، ن اور نگ اور 'ھ' اور 'ہ' دونوں چترالی میں رائج ہیں اسی طرح ایک اور مثال الف ممدودہ (آ) اور الف مقصورہ (ا) کی دی جا سکتی ہے جو الگ الگ مستعمل ہیں مگر دونوں کو الف ہی کہا جاتا ہے یا کھوار زبان کا ایک نیا لفظ الف ھمزہ ا ان سب کو الف کہا جاتا ہے۔ چترالی زبان کے مکمل حروف تہجی کی تفصیل درج زیل ہے۔ الف ('ا'): چترالی زبان نے اردو کے دونوں الف کو من وعن اپنے اندر جگہ دی ہے یعنی ایک الف کو الف ممدودہ (آ) اور دوسرے الف مقصورہ (ا) کہا جاتا ہے۔ یہ الف اردو، کھوار اور چترالی زبان میں مشترک ہیں۔ بے ('ب')، پے ('پ')، تے ('ت')، ٹے ('ٹ')، ثے ('ث')، جیم ('ج')، جیم ('ج')، چے ('چ')، چے ('چ')، حے ('ح')، خے ('خ)، دال ('د')، ڈال ('ڈ')، ذال ('ذ')، رے ('ر')، ڑے ('ڑ')، زے ('ز')، زے ('ز')، ژے ('ژ)، سین ('س')، شین ('ش')، شین ('ش')، صاد یا صواد ('ص')، ضاد یا ضواد ('ض')، طوئے ('ط')، ظوئے ('ظ')، عین ('ع')، غین ('غ)، غین ('غ)، فے ('ف')، قاف ('ق')، قاف ('ق')، کاف ('ک')، گاف ('گ')، گاف ('گ')، لام ('ل')، میم ('م')، نون ('ن') چترالی زبان میں نون کی تین شکلیں مستعمل ہیں۔ ایک سادہ نون 'ن' دوسری نونِ غنہ 'ں' اور تیسری 'ن' جسے راقم نے ڑون کا نام دیا ہے را ئج ہیں۔ واؤ ('و')، ہے ('ہ')چترالی میں ('ہ') کی تین اشکال ہیں مثلاً 'ہ' ' ة ' اور 'ھ' جس میں مؤخر الذکر کو دو چشمی ہے کہا جاتا ہے اور اسے اکثر مخلوط حروف بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جیسے تھ-اور دوسرا ' ة ' زکواة اور صلواة وغیرہ میں استعمال ہوتا ہے۔ ہمزہ ('ء'): راقم الحروف نے اسے بھی چترالی کے حروف تہجی میں شامل کیا ہے جیسا کہ"آئندہ"، "آئین" اور دائرہ وغیرہ جیسے الفاظ چترالی میں موجود ہیں۔ یے (چھوٹی یے) ('ی') چترالی زبان میں اس کی بھی دو اشکال ہیں یعنی 'ی' اور یے (بڑی یے) ('ے)'۔ چترالی زبان ابھی قریب المرگ ہے اور چترالی بولنے والوں نے اس کی ترقی کے لیے کو ئی ٹھوس اقدام ابھی تک نہیں اٹھایا اور نہ حکومت نے اس زبان کے فروع کے لیے کو ئی حکمت عملی وضع کی ہے گوکہ حکومتی سطح پر علاقائی زبانوں کے فروع کے لیے اداراے تو موجود ہیں اور وہ صرف فا ئلوں کی حد تک ان زبانوں کے لیے کام کر رہے ہیں بلکہ عملی طور پرایسا لگ رہا ہے کہ وہ ان زبانوں کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔ علاقا ئی زبانوں کے فروع کے مختص فنڈز کس طرح اور کہاں استعمال ہوتا ہے اس کا جواب متعلقہ محکمہ ہی دے سکتی ہے۔ شمالی اور چترالی اہل قلم کی حوصلہ افزا ئی ان حکومتی اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے امید کی جاتی ہے کہ ہندوکش، ھمالیہ اور قراقرم کے پہاڑوں کے دامن میں محبوس زبانوں کو بھی ان کا حق دیا جائے گا۔ چترالی اور شمالی زبانوں میں بولی جانے والی زبانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے ازالے کے لیے 25 اپریل 1996 کو کراچی میں کھوار اکیڈمی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس اکیڈمی نے متعلقہ اداروں سے خط کتابت اور اپنی قراردوں کے ذریعے شمالی و چترالی زبانوں کو ان کا حق دلانے کے لیے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ کھوار اکیڈمی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے پہلی بار شمالی اور چترالی زبانوں کے فروغ کے لیے آواز اٹھا ئی۔ کھوار اکیڈمی کا نعرہ بھی یہی ہے کہ اپنی مادری زبان میں بولیے، لکھیے اور پڑھیے۔ اس کتاب کا مقصد بھی یہی ہے کہ جو لوگ پڑھنا، لکھنا نہیں جانتے انھیں بھی اس قابل بنایا جا ئے کہ وہ اپنی مادری زبان میں لکھ اور پڑھ سکیں۔ چترالی زبان کا اپنا رسم الخط بھی موجود ہے لیکن چترال میں یہ رسم الخط تحریروں میں شاز ہی نظرآتاہے۔