نقشہ فیصل آباد سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ |
2
|
2005ء میں ملک کے دوسرے بڑے شہروں کی طرح فیصل آباد میں بھی سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ نظام لاگو کیا گیا، جس کے مطابق اسے 8 مختلف ٹاؤن میں تقسیم کر دیا گیا۔ ماضی کی تحصیلیں بھی اس نئے نظام کے تحت ٹاؤن کا درجہ پا گئیں۔[1] چک جھمرہ ٹاؤن بھی ان آٹھ ٹاؤنز میں سے ایک ہے۔ اس کی 15 یونین کونسلیں ہیں۔
2017ء کی مردم شماری کے مطابق ٹاؤن کی آبادی 332461 نفوس پر مشتمل تھی،
چک جھمرہ ایک شہر ، ایک ٹاؤن، ریلوے جنکشن اور تحصیل ہے۔ ۔ سانگلہ ہل روڈ پر فیصل آباد کے شمال مشرق میں 21 کلومیٹر (13 میل) میں واقع ہے۔ خانیوال- وزیر آباد برانچ اور سانگلہ ہل۔ کندیاں برانچ شہر میں چوراہی کرتی ہے اور اسے بالترتیب فیصل آباد اور سرگودھا سے جوڑتی ہے۔
"قیام پاکستان سے قبل یہ شہر روئی کے تجارت کا ایک مرکز کے طور پر جانا جاتا تھا۔ 1960ء کی دہائی کے آغاز سے ، اس شہر کو دوبارہ معاشی نمو اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کا تجربہ کرنا پڑا۔ اس وقت شہر کے اندر متعدد اسکول ، اسپتال اور ٹیکسٹائل فیکٹریاں تعمیر کی گئیں۔" اس وقت ، قصبے کے اندر تین کپاس پیسنے والی فیکٹریاں چل رہی تھیں۔ تقسیم ہند کے بعد ، اس قصبے کی ہندو آبادی ، جس میں سے بیشتر تاجر ہندوستان تھے ، ہجرت کرگئے ، جس کی وجہ سے کاروبار میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ تقسیم سے پہلے یہ ایک اناج منڈی تھی۔ یہاں ایک ملٹری ایئر پورٹ تھا جو پاک بھارت 1965ء کی جنگ میں تباہ ہو گیا تھا۔
چک جھمرہ میں گرودوارہ شہید بھائی دلیپ سنگھ کا مزار ہے۔ شہید بھائی دلیپ سنگھ کی یاد میں بنایا گیا یہ مقدس مزار ضلع فیصل آباد (لائلپور) کے چک نمبر 132 آر بی میں ہے۔ چک جھمرہ کے ریلوے اسٹیشن کے ساتھ پولیس اسٹیشن ہے۔ ریلوے اسٹیشن سے فیصل آباد جاتے ہوئے پہلے ریلوے کراسنگ سے گذرنے والی سڑک سے، تقریبا 2 کلومیٹر دور، ایک پکا رستہ گاؤں کی طرف جاتا ہے۔ گاؤں کی جامع مسجد اس گوردوارے کے صحن میں تعمیر کی گئی ہے اور دونوں مذہبی مقامات کے لیے داخلہ عام ہے۔ اس مسجد کو گردوار وال مسجد بھی کہا جاتا ہے۔ اس عمارت کے سامنے ایک برآمدے کے ساتھ دو ہال ہیں۔ گوردوارہ کی دیواریں مضبوط ہیں لیکن چھت کمزور ہے۔
چک جھمرہ کی وجہ تسمیہ کے پیچھے بھی بڑی دلچسپ روایت کچھ یوں ہے کہ چنیوٹ سے ہجرت کرکے آنے والی قوم رجوکہ نے تقریباً چار سو سال قبل ( ساندل بار) یہاں آکے پڑاؤ کیا تب اس جگہ بارشوں کے پانی سے ایک تالاب بنا ہوا تھا تالاب کے کنارے “ون” کا ایک درخت تھا جس کا سایہ ہمہ وقت تالاب کے پانی میں رقص کرتا ہوا نظر آتا چونکہ رجوکہ جانگلی قوم ہے اور اس قوم کا پسندیدہ رقص”جھمر”ہے لہذا مقامی لوگ اس کو جھمر والی جگہ کے نام سے پکارنے لگے جھمرہ”جھمر”کی بگڑی ہوئی شکل ہے تاہم اس کے ساتھ چک کا لفظ لگنے کی وجہ انگریزحکومت بنی انگریز سرکار موجودہ فیصل آباد (اُس وقت کے ساندل بار) کو آباد کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی تھی مگر جھمرہ کی زرخیز زمینوں نے بکثرت کپاس کی فصل اگنا شروع کر دی تو نہ چاہتے ہوئے بھی یہاں ایک غلہ منڈی بن گئی جبکہ سرکار لائلپور کی بغل میں کسی اور علاقہ کو ٹاوٴن کا درجہ دینے سے کتراتی تھی لہٰذا جھمرہ کے ساتھ چک کا لفظ جوڑ کر اس کو چک جھمرہ بنا دیا گیا
1896ء میں انگریز سرکار نے یہاں ریلوے اسٹیشن تعمیر کروایا تب چک جھمرہ کی آبادی 1086 افراد پر مشتمل تھی عوام کی جان ومال کے تحفظ کے لیے 13286 روپے خرچ کرکے یہاں تھانہ اور ڈرینج سسٹم بنایا گیا تھا یہ تھانہ کئی سال تک تھانہ چنیوٹ روڈ کے نام سے جانا جاتا رہا 1905ءیا1906ء میں باقاعدہ اس کو تھانہ چک جھمرہ کا نام دیا گیا تھا تب تک آبادی2100 نفوس کے لگ بھگ بڑھ چکی تھی اس علاقے میں کپاس کی فصل بہت اچھی ہوتی تھی اسی بنا پر یہاں ایک غلہ منڈی بن گئی مگر اس غلہ منڈی کی بھاگ دوڑ زیادہ تر ہندوؤں کے ہاتھ میں تھی اُس کے وقت کے مشہور آڑھتی بنسری لال, سیٹھ برلارام اور لال چند تھے 1901ء تک چک جھمرہ میں کاٹن کی پانچ فیکٹریاں بن چکی تھی تاریخی حوالوں کے مطابق یہاں سب سے پہلے عصمت اللہ اینڈ ہیرانند,فضل دین اینڈ محمد حیات نامی فیکٹریاں بنائی گئی ان کے بعد ہندو تاجر لالہ بشن داس کپور نے ایک مل بنائی جو منڈی کے آڑھتی بھی تھے۔