کالاباغ بند کالا باغ ڈيم | |
---|---|
ملک | پاکستان |
مقام | کالا باغ، ضلع میانوالی |
درجہ | مجوزہ |
ڈیم اور سپل وے | |
قسم ڈیم | Earthfill dam (zoned fill embankment with clay core) |
تقید | دریائے سندھ |
بلندی | 79 میٹر (259 فٹ) |
لمبائی | 3,350 میٹر (10,991 فٹ) |
ذخیرہ آب | |
فعال گنجائش | 7.52 کلومیٹر3 (6,100,000 acre·ft) |
غیر فعال گنجائش | 9.7 کلومیٹر3 (7,900,000 acre·ft) |
طاس کا رقبہ | 110,500 مربع میل (286,000 کلومیٹر2) |
بجلی گھر | |
Hydraulic head | 170 فٹ (52 میٹر) |
ٹربائن | 12 x 300 واٹ |
Installed capacity | 3,600 واٹ (max. planned) |
Annual generation | 11,400 GWh |
کالاباغ ڈیم یا کالاباغ بند حکومت پاکستان کا پانی کو ذخیرہ کر کے بجلی کی پیداوار و زرعی زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے ایک بڑا منصوبہ تھا جو تاحال متنازع ہونے کی وجہ سے قابل عمل نہیں ہو سکا۔ اس منصوبہ کے لیے منتخب کیا گیا مقام کالا باغ تھا جو ضلع میانوالی میں واقع ہے۔ ضلع میانوالی صوبہ پنجاب کے شمال مغربی حصے میں واقع ہے۔ یاد رہے کہ ضلع میانوالی پہلے صوبہ خیبر پختونخوا کا حصہ تھا جسے ایک تنازع کے بعد پنجاب میں شامل کر دیا گیا۔
کالاباغ بند کا منصوبہ اس کی تیاری کے مراحل سے ہی متنازع فیہ رہا ہے۔ دسمبر 2005ء میں اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے اعلان کیا کہ، “وہ پاکستان کے وسیع تر مفاد میں کالاباغ بند تعمیر کر کے رہیں گے“۔ جبکہ 26 مئی 2008ء کو وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف نے ایک اخباری بیان میں کہا، “کالاباغ بند کبھی تعمیر نہ کیا جائے گا“ انھوں نے مزید کہا، “صوبہ خیبر پختونخوا، سندھ اور دوسرے متعلقہ فریقین کی مخالفت کی وجہ سے یہ منصوبہ قابل عمل نہیں رہا۔“[1]
>
کالاباغ بند کی تعمیر کے منصوبے کے پیش ہوتے ہی پاکستان کے چاروں صوبوں خیبر پختونخوا، پنجاب، سندھ اور بلوچستان کو تلخی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس منصوبہ کی تعمیر کے حق میں صرف صوبہ پنجاب ہے جو تمام چاروں صوبوں میں سیاسی و معاشی لحاظ سے انتہائی مستحکم ہے۔ مرکزی حکومت کی تشکیل بھی عام طور پر صوبہ پنجاب کی سیاست کے گرد گھومتی ہے۔ پنجاب کے علاوہ دوسرے صوبوں نے اس منصوبہ کی تعمیر کے خلاف صوبائی اسمبلیوں میں متفقہ قراردادیں منظور کیں اور سخت تحفظات کا اظہار کیا۔ تب سے یہ منصوبہ کھٹائی میں پڑا رہا اور اس پر کوئی بھی تعمیری کام ممکن نہ ہو سکا۔
سیاسی و علاقائی مخالفتوں کے علاوہ ایک بڑی رکاوٹ جو اس منصوبہ کی راہ میں حائل ہے وہ عالمی قانون برائے تقسیم پانی کی ہے، جس کے مطابق کسی بھی دریا کے آخری حصہ پر موجود فریق کا یہ نہ صرف قانونی بلکہ قدرتی حق ہے کہ پانی کی ترسیل اس تک ممکن رہے۔ اسی وجہ سے دریائے سندھ کے آخری حصہ پر موجود فریق یعنی صوبہ سندھ کی مرضی کے بغیر اس منصوبہ کی تعمیر ممکن نہیں ہے۔ البتہ اس قانون میں یہ بھی شامل ہے کہ اگر دریا کے آخری حصہ پر موجود فریق دریا کے پانی کو استعمال میں نہیں لاتا تو بند کی تعمیر ممکن بنائی جا سکتی ہے۔
گو اس منصوبہ سے حاصل ہونے والے فوائد میں بجلی کی پیداوار اور پانی کا ذخیرہ کرنا، جس سے زرعی زمین سیراب ہو سکتی ہے شامل ہے مگر اس کے ماحول پر بھی کئی مضر اثرات ہیں، جو کسی بھی ایسے ہی بڑے منصوبے کی وجہ سے ماحول کو لاحق ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ منصوبہ ایک بڑی آبادی کی ہجرت کا بھی سبب بنے گا۔ اس منصوبہ کے مخالفین نے حاصل ہونے والے فوائد کی نسبت اس کے نقصانات کو واضع طور پر اجاگر کیا ہے جس کی وجہ سے تینوں مخالف صوبوں میں عوامی رائے عامہ اس منصوبہ کی تعمیر کے حوالے سے ہموار نہیں ہے۔ عالمی قانون برائے تقسیم پانی، عوامی رائے عامہ اور فریقین کا نقطہ نظر وہ چند عوامل ہیں جن کے سبب 1984ء سے اب تک اس منصوبہ کو عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا۔
اس حوالے سے اعتراضات اور اس منصوبہ پر تحفظات کو سمجھنے کے لیے صوبوں کے نقطہ نظر کا مطالعہ سودمند رہے گا۔
پنجاب جس کی بڑھتی آبادی، صنعت و زراعت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پانی درکار ہے، کالاباغ بند کا منصوبہ بلاشبہ اس کی ان ضروریات کو نہ صرف پورا کر سکتا ہے بلکہ یہ پورے ملک کے لیے سستی بجلی کا ایک مستقل ذریعہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
پنجاب میں ایک عام رائے یہ ہے کہ بحیرہ عرب میں دریائے سندھ کا شامل ہونا دراصل پانی کے ذخیرے کا “ضائع“ ہو جانا ہے۔ یہ پانی ملک میں ان زمینوں کو سیراب کر سکتا ہے جو پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے بنجر ہیں۔
پنجاب کے نقطہ نظر میں کالاباغ بند کے علاوہ بھی دو بڑے منصوبے بھاشا بند اور سکر دو بند بھی تعمیر کیے جانے چاہیے۔ کالاباغ بند چونکہ ان تینوں منصوبوں میں بہتر وسائل کی دستیابی کی وجہ سے قابل عمل ہے تو اسے سب سے پہلے تعمیر ہونا چاہیے۔ بہاولپور اور بہاول نگر کے علاقے کالاباغ بند کے ذخیرے سے سب سے زیادہ مستفید ہوں گے۔
پنجاب میں کالاباغ بند کی تعمیر کے حق میں کئی مظاہرے بھی کیے گئے ہیں، بلکہ وقتاً فوقتاً عوامی سطح پر ایسے مظاہرے نقض امن کی وجہ بھی بنے ہیں۔ 1960ء کے اوائل میں بھارت کے ساتھ پانی کی تقسیم کے معاہدوں پر پاکستان نے دستخط کیے۔ اس معاہدے کے تحت ستلج اور بیاس کے حقوق بھارت کو دے دیے گئے۔ تب سے بھارت دریائے راوی، ستلج اور بیاس کو صرف سیلابی پانی کے اخراج کے لیے استعمال کرتا آیا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین ہونے والے معاہدے کی رو سے ان دریاؤں پر بند کی تعمیر کا حق رکھتا ہے۔ پاکستان کی وفاقی حکومت ان میں سے کسی بھی منصوبے پر واضع کامیابی حاصل نہیں کر سکی جس کے نتیجے میں صوبہ پنجاب کو فراہم کیا جانے والا پانی صرف تین دریاؤں تک محدود ہو گیا۔ پنجاب کے نقطہ نظر میں کالا باغ ڈیم دو دریاؤں یعنی دریائے ستلج اور بیاس کی بھارت کو حوالگی کے نتیجے میں ہونے والے صوبائی نقصانات کا بہتر نعم البدل ثابت ہو سکتا ہے،یہ صوبائی نقصان بلاشبہ وفاقی سطح پر ہونے والی زیادتی ہے، جس کے ذمہ دار دوسرے صوبے بھی ہیں۔
صوبہ پنجاب کی اس منصوبہ کی حمایت دراصل اس حقیقت سے بھی جڑی ہوئی ہے کہ کالا باغ بند سے تقریباً 3600 میگا واٹ بجلی حاصل ہو سکتی ہے جو پاکستان کی توانائی کے مسائل ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ نہ صرف پنجاب بلکہ پورے پاکستان میں ترقی کے نئے دور کا پیش خیمہ ثابت ہو گی کیونکہ پانی سے پیدا ہونے والی بجلی دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی توانائی کی نسبت انتہائی سستی ہے۔
پنجاب نے اس منصوبہ پر اپنے موقف میں لچکداری کا مظاہرہ کیا ہے اور کالا باغ منصوبہ سے حاصل ہونے والی وفاقی سطح پر آمدنی سے حصہ وصول نہ کرنے کا اعلان کیا لیکن پھر بھی دوسرے صوبوں کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکامی ہوئی۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ایک تکنیکی مسئلے کو سیاسی رنگ دے دیا گیا۔
صوبہ سندھ جس نے کالا باغ منصوبے کی سب سے پہلے مخالفت کی. اس منصوبہ سے متاثر ہونے والا اہم فریق ہے۔ گو صوبہ سندھ اس منصوبہ کی کٹر مخالفت کرتا ہے لیکن اس کا نقطہ نظر “پنجاب کے ہاتھوں پانی کی چوری“ کے نظریہ پر قائم ہے۔ اس نظریہ کی انتہائی حمایت صوبہ سندھ میں دیکھنے میں آتی ہے لیکن کسی بھی طرح سے اس چوری کو ثابت نہیں کیا جا سکا ہے۔ صوبہ سندھ دراصل تاریخی لحاظ سے دریائے سندھ پر اپنا حق تسلیم کرتا ہے اور عوامی رائے میں دریائے سندھ پر صوبے کا حق تاریخ اور اس کے نام سے عیاں ہے۔ تربیلہ بند اور منگلا بند کی تعمیر کو صوبہ سندھ دراصل پنجاب کے ہاتھوں پانی چوری کا نقطہ سمجھتے ہوئے اب کالا باغ بند کی تعمیر کی اجازت دینے سے انکار کرتا آیا ہے، جس کی قیمت سندھ کی زرعی زمین کی تباہی کی صورت میں ادا کرنی پڑی ہے۔ اس کلیدی نقطہ کے علاوہ صوبہ سندھ اس منصوبہ کی مخالفت میں مندرجہ زیل نکات پیش کرتا ہے،
صوبہ خیبر پختونخوا کے کالا باغ بند پر دو بڑے تحفظات ہیں،
گو صوبہ بلوچستان کالا باغ بند کی تعمیر سے متاثر نہیں ہوتا مگر کئی قوم پرست سردار اس منصوبہ کی تعمیر کو صوبہ پنجاب کی چھوٹے صوبوں سے کی گئی ایک اور زیادتی تصور کرتے ہیں۔ اس منصوبہ کی مخالفت سے صوبہ بلوچستان دراصل غریب اور چھوٹے صوبوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی نشان دہی کرنا چاہتا ہے۔ حقیقت میں کالا باغ بند کی تعمیر سے صوبہ بلوچستان کو کچھی نہر (کچھی کینال) کی مدد سے اپنے حصے کے پانی کے علاوہ اضافی پانی بھی دستیاب ہو سکے گا۔
تجزیہ کار کالا باغ بند کی تعمیر کے حوالے سے اہمیت اس بات کو دیتے ہیں کہ یہ منصوبہ دراصل پنجاب اور باقی تین صوبوں کے درمیان عدم اعتماد کے کا سبب بنے گا۔
تمام پاکستانی اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کو پانی کی کمی کا سامنا ہے اور اس بارے جلد ہی کوئی مستقل حل ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ اس بات کا اظہار کیا جاتا ہے کہ اگر کالا باغ منصوبہ پر آج سے ہی کام شروع کر بھی دیا جائے تب بھی اسے مکمل اور فعال ہونے میں کم از کم آٹھ سال کا عرصہ درکار ہے، تب تک پانی کی دستیابی بارے حالات اور بھی خراب ہو چکے ہوں گے۔ تجزیہ کار اور تکنیکی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اتنے بڑے منصوبے پر عمل درآمد کی بجائے کئی چھوٹے بند، بیراج اور نہریں تعمیر کی جانی چاہیے۔ اس سے نہ صرف دوسرے صوبوں کے تحفظات بھی دور ہوں گے بلکہ یہ آبی، ماحولیاتی اور زرعی وسائل کو محفوظ بنانے کے لیے بہترین طریقہ بھی ہے، جس کی واضع مثال پنجاب اور سندھ میں نہری نظام کی شکل میں موجود ہے۔
واپڈا جو پاکستان میں بجلی اور توانائی کا وفاقی ادارہ ہے کئی سالوں سے کالا باغ بند بارے شماریاتی اعداد و شمار میں تبدیلیاں کرتا آیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس ادارے کی جانب سے پیش کیے جانے والے اعداد و شمار پر پاکستان کے کسی حصے میں کوئی بھی اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہے۔ حکومت پاکستان نے اس ضمن میں ایک تکنیکی کمیٹی اے ۔ این ۔ جی عباسی کی سربراہی میں تشکیل دی۔ اس کمیٹی کا مقصد کالا باغ بند کے منصوبے کے تکنیکی فوائد و نقصانات کا جائزہ لینا تھا۔ اس کمیٹی نے چار جلدوں پر مشتمل اپنی رپورٹ میں واضع طور پر رائے دی کہ بھاشا بند اور کٹزرہ بند کی تعمیر پانی کے ذخائر بارے حالات خراب ہونے سے پہلے تعمیر کیے جانے چاہیے اور کالا باغ منصوبہ ملکی مفاد میں فی الحال پس پشت ڈال دینا مفید ہو گا۔ اس رپورٹ کی روشنی میں کالا باغ بند اور بھاشا بند دراصل انتہائی موزوں منصوبہ جات ہیں اور ان کی تعمیر مکمل کی جانی چاہیے۔ رپورٹ کے اس حصے پر کئی گھمبیر عوامی و سیاسی مسائل کے کھڑے ہونے کا قوی امکان ہے۔
سابق صدر پرویز مشرف نے جس آمرانہ لہجے اور غیر پارلیمانی انداز میں اس معاملے کو اچھالا تھا، یہ کسی بھی طور پر وفاق کے لیے مثبت نہیں ہے۔ یہ دراصل ملک کے چھوٹے صوبوں کو اشتعال دلانے کے مترادف ہے اور وفاقی راہنماؤں کو اس طرح کے طرز عمل سے گریز کرنا ہو گا کیونکہ اب یہ معاملہ انتہائی نازک نہج اختیار کر چکا ہے۔ سابق صدر کے اس بیان کہ کالا باغ بند کی تعمیر ہر حال میں کی جائے گی دراصل عوامی حلقوں میں بے چینی کا سبب بنی۔ یہاں تک کہ صوبہ پنجاب کے جنوبی اضلاع میں صدر کے بیانات اور طرز عمل کی انتہائی مخالفت کی گئی۔ یاد رہے کہ صوبہ پنجاب کے جنوبی اضلاع کالا باغ بند کے منصوبے سے سب سے زیادہ مستفید ہونے والے علاقے ہیں۔
26 مئی 2008ء کو وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ کالا باغ ڈیم عوامی رائے کے ہموار ہونے کے بغیر ہر گز نہیں تعمیر کیا جائے گا۔ مزید یہ کہ صوبہ سرحد، سندھ اور دوسرے فریقین کی مخالفت کی وجہ سے یہ منصوبہ قابل عمل نہیں رہا۔
پاکستان کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اعلان کیا کہ اس منصوبہ کی قسمت دراصل عوامی رائے پر منحصر ہے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ فی الحال اس منصوبہ کو پس پشت ڈال کر ہمیں دوسرے مسائل کی طرف توجہ دینی چاہیے اور بجلی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے متبادل منصوبوں پر غور کرنا ہو گا۔ چونکہ یہ منصوبہ انتہائی متنازع شکل اختیار کر چکا ہے، حکومت اس بند کی تعمیر کے لیے کسی دوسری موزوں جگہ کی تلاش میں ہے۔[1]