پروفیسر، ڈاکٹر | |
---|---|
کرامت علی کرامت | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 23 ستمبر 1936ء اڑیا بازار، کٹک، صوبہ اڑیسہ، برطانوی راج (موجودہ اڈیشا، بھارت) |
وفات | 5 اگست 2022 کٹک، اڈیشا، بھارت |
(عمر 85 سال)
شہریت | برطانوی راج بھارت |
قومیت | بھارتی |
عرفیت | ڈاکٹر پروفیسر کرامت علی کرامت |
زوجہ | زبیدہ علی (شادی. 1959; وفات. 2020) |
اولاد |
|
عملی زندگی | |
تعليم | بی ایس سی ایم ایس سی پی ایچ ڈی |
مادر علمی | راونشا کالجیٹ اسکول راونشا کالج سمبل پور یونیورسٹی |
پیشہ | شاعر، نقاد، مصنف، مترجم، ریاضی داں، استاد |
پیشہ ورانہ زبان | اڑیا، اردو، انگریزی |
دور فعالیت | 1953ء تا 2022ء |
کارہائے نمایاں | آبِ خضر (تذکرۂ شعرائے اڑیسہ)، لفظوں کا آکاش، اضافی تنقید، نئے تنقیدی مسائل اور امکانات |
تحریک | اضافی تنقید، صالح اور صحت مند جدیدیت |
اعزازات | |
|
|
درستی - ترمیم |
کرامت علی کرامت (1936–2022ء) سرزمین اڈیشا، بھارت سے تعلق رکھنے والے ایک مشہور شاعر، مصنف، ادبی نقاد، منظوم مترجم، تبصرہ نگار اور ماہر ریاضیات تھے۔ ان کی کتابوں میں ”اضافی تنقید“، ”آب خضر“، ”شعاعوں کی صلیب“، ”لفظوں کا آسمان“ اور ”لفظوں کا آکاش“ قابل ذکر ہیں۔ اڈیشا کی اردو ادب کو ہند و بیرون ہند کی اردو دنیا سے منسلک و متعارف کرانے والوں میں ان کا نام سر فہرست اور نمایاں ہے۔
کرامت علی کرامت کی پیدائش 23 ستمبر 1936ء کو بدھ کے دن؛ اڑیا بازار، کٹک، اڈیشا میں ہوئی تھی۔[1][2] ان کے والد رحمت علی رحمت ریاضی داں، اردو کے انشاپرداز اور شاعر تھے۔[3] آبائی وطن قصبۂ سونگڑہ (رسول پور) ہے۔[4]
کرامت کی رسم بسم اللّٰہ 11 جنوری 1941ء کو ہوئی تھی۔[5] انھوں نے قرآن کریم اور اردو و فارسی کی ابتدائی تعلیم محمد کاظم سونگڑوی سے اور فارسی اپنے والد رحمت علی رحمت سے پڑھی، اس کے بعد جدومنی رتھ نامی ٹیوٹر سے اڑیا علم و ادب اور ریاضی و ہندسہ میں پختگی و مہارت پیدا کی اور اس سلسلے میں اپنے والد سے بھی استفادہ کیا۔[6][5] ابتدائی تعلیم کے بعد انھوں نے کھلی کوٹ کالجیٹ اسکول، برہم پور سے نویں کلاس کی تعلیم حاصل کی، مقامی زبان کے طور پر اڑیا اور کلاسیکی زبان کے طور پر فارسی منتخب کیا،[6] پھر 1952ء میں راونشا کالجیٹ اسکول، کٹک سے درجۂ اول کے ساتھ دسویں (میٹرک) پاس کیا،[1] جہاں انھوں نے اڑیا اور فارسی کی بجائے اردو اور فارسی کا انتخاب کر لیا تھا۔[6]
1954ء میں کرامت نے راونشا کالج (موجودہ راونشا یونیورسٹی)، کٹک سے درجۂ اول کے ساتھ آئی ایس سی (انٹرمیڈیٹ) کا امتحان پاس کیا۔[7][8] 1956ء میں راونشا کالج سے بیچلر آف سائنس کیا۔[9] 1958ء میں راونشا کالج سے ریاضیات میں درجۂ اول کے ساتھ ماسٹر آف سائنس کیا اور درجۂ اول آنے کی بنا پر انھیں طلائی تمغا حاصل ہوا۔[10][11]
1978 میں، کرامت نے پروفیسر مہندر ناتھ مشرا کے زیر نگرانی سمبل پور یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کے لیے اندراج کرایا اور ریاضی میں نظریۂ امکانات کے موضوع پر "”سَم پروپرٹیز آف رینڈم ایکویشنز“" [Some Properties of Random Equations] کے عنوان سے اپنا مقالہ مکمل کیا، جس پر انھیں 13 نومبر 1982ء کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل ہوئی۔[1][12] ان کا مقالۂ پی ایچ ڈی معروف امریکی ریاضی داں البرٹ ٹرنر بھاروچہ ریڈ کو اس قدر پسند آیا کہ انھوں نے کرامت کے تحقیقی نتائج کو اپنی کتاب ”رینڈم پولینومیلز“ [Rendom Polynomials] میں شامل کیا۔[13][14]
23 مئی 1959ء کو قصبۂ تلپاٹک کے عبد الرفیق خاں کی دوسری صاحب زادی زبیدہ خاتون سے ان کا نکاح ہوا تھا،[13] جن سے ایک صاحب زادے قطب کامران اور تین صاحب زادیاں صنوبر سلطانہ، در شہوار اور رفیعہ رباب ہیں۔[7] جنوری 2005ء میں کرامت نے اپنی اہلیہ کے ساتھ حج بیت اللہ کا شرف حاصل کیا اور 26 جنوری 2020ء کو ان کی اہلیہ کا انتقال ہو گیا۔[7]
8 ستمبر 1958ء ہی سے کرامت نے اڑیسہ ایجوکیشنل سروس کے تحت علم ریاضی کے لکچرر کی حیثیت سے ملازمت شروع کی[1][8] اور شری کرشن چندر گج پتی کالج، پارلہ کھمنڈی، ضلع گج پتی، اڈیشا میں شعبۂ ریاضیات کے لکچرر رہے۔[1][13] 13 جولائی 1959ء میں راونشا کالج، کٹک میں شعبۂ ریاضیات کے مستقل لیکچرر مقرر ہوئے۔[9][13] 1959ء تا 1961ء راونشا کالج، کٹک میں لکچرر رہے، 1961ء تا 1963ء شری کرشن چندر گج پتی کالج، پارلہ کھمنڈی، ضلع گج پتی میں لکچرر رہے، 1963ء تا 1966ء سائنس کالج، انگول، ضلع ڈھینکانال میں لکچرر رہے، 1966ء تا 1969ء پھر سے راونشا کالج کے لکچرر رہے۔[15] 1969ء تا 1979ء سندر گڑھ کالج، سندر گڑھ میں شعبۂ ریاضیات کے ریڈر و صدر رہے۔[16] 10 جولائی 1979ء تا 10 نومبر 1979ء کھلی کوٹ کالج، برہم پور کے ریڈر رہے،[15] 1979ء تا 1980ء کیندرا پاڑہ کالج، کیندرا پاڑہ کے پرنسپل رہے۔[16] فروری 1981ء تا مئی 1982ء بخشی جگ بندھو بدھیادھر کالج، بھوبنیشور اور جون 1982ء تا اکتوبر 1982ء شیلابالا ویمنز کالج، کٹک کے ریڈر رہے۔[1] اکتوبر 1982ء تا 1986ء راونشا کالج، کٹک کے وائس پرنسپل رہے، فروری 1986ء تا 1989ء کھلی کوٹ آٹونومس کالج، برہم پور میں ریاضیات کے پروفیسر و صدر شعبۂ ریاضیات رہے اور 1989ء تا 1990ء اسی کالج کے پرنسپل رہے۔[15] 1990ء تا 30 جون 1995ء سروس سلیکشن بورڈ، بھوبنیشور کے پریسیڈنٹ رہے۔[15] 30 جون 1995ء کو سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔[17]
کرامت کے والد رحمت علی رحمت ایک ریاضی داں اور شاعر تھے، جس کی وجہ سے کہا جا سکتا ہے کہ ادب و ریاضی کا ذوق انھیں ورثہ میں ملا، ان کے والد بچپن میں ہی انھیں بزم ادب کٹک کے مشاعروں میں شرکت کے لیے لے جایا کرتے تھے، ان کی ادبی زندگی کا آغاز زمانۂ طالب علمی ہی سے ہو چکا تھا، ان کے شعر و سخن کے استاذ ان کے والد رحمت علی رحمت اور امجد نجمی تھے۔[18][19][20] عروضی نکات راونشا کالج کے زمانۂ تعلیم میں منظر حسن دسنوی (1914ء–1991ء) سے سیکھے تھے۔[21][8] مظہر امام کے آل انڈیا ریڈیو کے ٹرانس میشن ایگزیکیوٹِو کی حیثیت سے کٹک کے زمانۂ قیام (1958ء تا 1962ء) میں کرامت کو ان کے بصیرت افروز مشوروں سے اردو نثری ادب میں خوب فائدہ ہوا۔[22][23] مظہر امام ہی کی تحریک پر کرامت نے 1963ء میں ”آب خضر“ کے نام سے شعرائے اڑیسہ کے انتخاباتِ کلام کو ان کے مختصر تذکرہ کے ساتھ مرتب و جمع کرکے انھیں عالم کے سامنے روشناس کرنے کا کام کیا۔[22][23][24]
جون 1965ء میں،[25] شب خون کی اشاعت سے سال بھر قبل کرامت نے ”صالح اور صحت مند جدیدیت“ کے ترجمان کے طور پر کٹک سے ”شاخسار“ کے نام سے ایک دو ماہی رسالہ جاری کرکے زمام ادارت اپنے استاذ امجد نجمی کے حوالے کر دیا تھا،[22][26] جس کا پہلا شمارہ جون - جولائی 1965ء کو اور آخری شمارہ مئی 1973ء کو شائع ہوا تھا۔[25] اردو ادب میں شاخسار کی خدمات پر ”Contribution of Shakhsar to Urdu Literature“ کے موضوع پر سلمان راغب نے مقالہ لکھ کر اتکل یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ہے۔[27] اس رسالے نے ابتدائی طور پر اپنے مختصر عرصے میں ہی اڈیشا کی ادبی دنیا کو ہند و بیرون ہند کی اردو دنیا سے منسلک و متعارف کرانے میں مرکزی رول ادا کیا ہے۔[7]
1969ء تا 1979ء کرامت کی ادبی و تخلیقی سرگرمیوں کا سنہرا دور سمجھا جاتا ہے۔[28] اس زمانے میں کرامت نے خوب تنقیدی مضامین لکھے اور صبحِ نو پٹنہ، شاعر ممبئی، نگار لکھنؤ، نیا دور، لکھنؤ اور شاخسار، کٹک جیسے کئی مقتدر ادبی رسائل میں موضوعِ بحث بنے رہے۔[28] ان کا پہلا تنقیدی مضمون بہ عنوان ”مجاز کی غنائیت “ صبحِ نو، پٹنہ کے جنوری 1959ء کے شمارہ میں شائع ہوا تھا۔[29] 1977ء میں ان کا پہلا تنقیدی مجموعہ ”اضافی تنقید“ کے نام سے شائع ہوا اور دوسرا تنقیدی مجموعہ 2009ء میں ”نئے تنقیدی مسائل اور امکانات“ کے نام سے شائع ہوا۔[28][30][31] کرامت علی کرامت اور شمس الرحمن فاروقی کے درمیان عرصۂ دراز تک شعریات اور بوطیقا سے متعلق ادبی تنقیدی معرکہ جاری رہا ہے، جو اوراق لاہور سے شروع ہو کر تحریک دہلی کے متعدد شماروں سے ہوکر شاخسار کٹک کے ایک شمارے پر ختم ہوا۔[27] یہاں ایک قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ باہمی فکری اختلافات کے باوجود کرامت و فاروقی میں تعلقات و مراسم خاصے اچھے تھے اور دونوں ایک دوسرے کی قدر کرتے تھے۔[7]
کرامت کی تحریروں میں سائنسی علوم، نفسیات، تحلیل نفسی، تقابلی ادبیات و لسانیات، صوتیات، اسلوبیات، شعریات اور رد تشکیل وغیرہ کی تکنیک استعمال ہوتی ہے اور ان کے اخذ کردہ نتائج معروضی ہوتے ہیں،[32] اس وجہ سے وزیر آغا نے ان کی تنقید کو ”امتزاجی تنقید“ کے ذیل میں رکھا،[33] سلام سندیلوی (متوفی: 2000ء) انھیں ”نفسیاتی نقاد“ قرار دیتے تھے اور ابن فرید نے ان کی تنقید کو ”بین علومی مطالعہ“ سے منسوب کیا۔[32] مگر بقول امجد نجمی کرامت شعری تنقید میں ”نظریۂ اضافیات“ کے بانی ہیں۔[34] حفیظ اللہ نیولپوری کے مطابق؛ شعریات، تخلیقی عوامل اور ترسیل وابلاغ کے مسائل پر مبنی کرامت کا مضمون ”شعری تنقید میں اضافیات“ اساسی اور کلیدی مضمون کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس مضمون میں انھوں نے ریاضیات، شماریات، سائنس، علم النفس، جدید علم فلسفہ اور فنون لطیفہ کے اصول کو پیش نظر رکھتے ہوئے ادب میں ایک ایسا نظریۂ اضافیات پیش کیا ہے، جس سے فریڈرک اے پوٹل [Frederick Albert Pottle] (متوفی:1987ء) کی کتاب دی ایڈیم آف پویٹری [The Idiom of Peotry] (مطبوعہ:1946ء) میں موجود Relative Criticism کے نظریہ کو توسیع ملتی ہے؛ لیکن دونوں کے نظریوں میں فرق یہ ہے کہ پوٹل نے شاعری کو مطلق اور تنقید کو اضافی قرار دیا تھا اور کرامت نے شاعری اور تنقید دونوں کو اضافی قرار دیا ہے۔[35][36][7] سعید رحمانی فن تنقید پر کرامت کا نظریہ نقل کرتے ہیں:[37]
’’زمانے کے ساتھ ساتھ انسان کے علوم میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور ان علوم کا اثر ناقدین کے تنقیدی شعور پر بھی پڑتا ہے۔ جس وقت شاعری اپنے فن کی قبا میں زندگی کے نئے مسائل کو جذب کرلینے کی کوشش کرتی ہے، اس وقت فنِ تنقید کو بھی اپنا پیمانہ بدلنا ضروری ہوجاتا ہے۔ ایک ناقد کا فرض تنقید کو روکنا نہیں؛ بلکہ پرانی قدروں کی جگہ نئی قدروں کو پیش کرنا ہے۔ چونکہ انسان کا ذہن و شعور ارتقا پسند ہے اس لیے کسی بھی تنقیدی اصول کو حرفِ آخر تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔‘‘[37][38]
کرامت کی شاعری غزل اور نظم دونوں صنف کو محیط ہے۔ انھوں نے پہلی غزل 15 فروری 1953ء میں اور پہلی نظم 31 دسمبر 1954ء میں کہی تھی۔[39] پروفیسر عنوان چشتی کے مطابق کرامت نے شاعری کی صالح روایات کی توسیع کی راہ اختیار کی ہے، ان کی ذہنی تربیت اگرچہ روایتی نہج پر ہوتی ہے؛ مگر وہ روایتوں کے اسیر نہیں ہیں، ان کی شاعری میں ”عصری آگہی“ کا رنگ و آہنگ بھی ہے اور یہ رنگ و آہنگ دو طرح سے ظاہر ہوا ہے، ایک سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کو شعور کا حصہ بنا کر پیش کرنے کی صورت میں، دوسرے خوابوں اور حقیقتوں کے تصادم کے اثرات کی شکل میں، نیز انھوں نے سائنس کی فتوحات کا رزمیہ نہیں لکھا ہے، ان پر منظوم بیان بھی نہیں دیا ہے؛ بلکہ انھوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کو شعور کا جزو بناکر اس کا تخلیقی اظہار کیا ہے۔[40] ان کا پہلا شعری مجموعہ 1972ء میں ”شعاعوں کی صلیب“ کے نام سے شائع ہوا،[30] دوسرا شعری مجموعہ 2006ء میں ”شاخ صنوبر“ کے نام سے اور تیسرا شعری مجموعہ 2016ء میں ”گل کدۂ صبح و شام“ کے نام سے شائع ہوا۔[41][7] ایس سجاد بخاری کے مطابق؛ کرامت آزاد غزل گو فنکاروں کے پہلے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور انھوں نے ابتدائی دور میں آزاد غزل کو بھی استحکام بخشا۔[42] علیم صبا نویدی کے مطابق کرامت نے ہندوستان میں آزاد غزل گوئی کی ایک پوری تحریک چلائی تھی۔[43] وہاب اشرفی تاریخ ادب اردو جلد دوم میں لکھتے ہیں:[44]
”بحیثیت شاعر اور نقاد کرامت علی کرامت کی ادب میں ایک مخصوص جگہ ہے۔ علم ریاضی سے ان کی وابستگی نے ان کی تنقید کو ایک نیا ڈائمنشن بخشا ہے۔“
انھوں نے مختلف اڑیا مضمون نگاروں اور شاعروں کی اڑیا مضامین یا شاعری کا اردو میں ترجمہ کرکے اردو و اڑیا زبان و ادب کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنے اور انھیں باہم قریب لانے کی جدوجہد کی۔[45] اسی سلسلے میں انھوں نے سب سے پہلے پروفیسر بِدو بھوشن داس کے مضمون کا اردو ترجمہ کیا، جسے نیاز فتح پوری نے اوائل 1962ء میں نگار، لکھنؤ میں شائع کیا تھا۔[46] گیان پیٹھ اعزاز یافتہ اڑیا شاعر سیتا کانت مہاپاتر کی نظموں کا ”لفظوں کا آسمان“ کے نام سے منظوم اردو ترجمہ کیا، جسے 1984ء میں مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، جامعہ نگر، نئی دہلی نے مالک رام کے تعارف اور وزیر آغا کے پیش لفظ کے ساتھ شائع کیا،[47] وزیر آغا نے مذکورۂ بالا کتاب پر پیش لفظ لکھتے ہوئے یہ الفاظ رقم کیے ہیں:
” | اردو والوں کو ڈاکٹر کرامت علی کرامت کا ممنون ہونا چاہیے کہ انھوں نے سیتا کانت مہاپاتر کی نظموں کو اردو میں منتقل کرکے اردو زبان کو ایک نئے ذائقے سے آشنا کردیا۔[48] | “ |
سیتا کانت ہی کی اڑیا نظموں کے مجموعہ ”شبدر آکاش“ کا؛ ”لفظوں کا آکاش“ کے نام سے منظوم اردو ترجمہ کیا، جسے ساہتیہ اکیڈمی، نئی دہلی نے 2000ء میں شائع کیا اور اسی کتاب کے لیے ساہتیہ اکیڈمی ہی کی طرف سے 23 اگست 2005ء کو گوپی چند نارنگ کے ہاتھوں حیدرآباد کی ایک تقریب میں ساہتیہ اکادمی ٹرانسلیشن پرائز برائے 2004ء سے نوازا گیا، انھوں نے سیتا کانت مہاپاتر کے علاوہ سچی راؤت رائے، چنتا منی بہرا، رماکانت رتھ، سوریندر باریک، برہموتری مہانتی، پرتیبھا شت پتی، نرنجن پاڑھی، لکشمی نارائن مہاپاتر جیسے شاعروں کی شاعری اور سریندر مہانتی، منوج داس، گوپی ناتھ مہانتی، رام چندر بہرا جیسے بلند پایہ افسانہ نگاروں کے افسانوں کا بھی اردو میں ترجمہ کیا۔[45][49] انھوں نے اڑیا زبان و ادب کے موضوع پر ”اڑیا زبان و ادب - ایک مطالعہ“ کے نام سے ایک کتاب لکھی، جسے 2020ء میں اڈیشا اردو اکادمی نے شائع کیا۔[7]
شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں:
” | ”My indefatigable friend Karamat Ali Karamat, in addition to being a fine Urdu poet and critic, is also a tireless translator.“[49] (ترجمہ: میرے بے حد محنتی دوست کرامت علی کرامت اردو کے بہترین شاعر اور نقاد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک انتھک مترجم بھی ہیں۔) |
“ |
1990ء میں اے رسل نے خود کرامت کے ساتھ مل کر ”The Story of The Way And Other Poems“ کے نام سے کرامت کی اردو شاعری کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ جینت مہاپاتر اور دوسروں نے 2012ء میں ”Selected poems of Karamat Ali Karamat“ کے نام سے چند اور اردو نظموں کا انگریزی ترجمہ مرتب کیا، جسے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی نے کتابی شکل میں شائع کیا۔[7] اسی طرح ایلزبتھ کورین مونا نے ”God Particle and Other Poems“ کے نام سے کرامت کی اردو شاعری کا انگریزی میں ترجمہ کیا، جو 2021ء میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی سے شائع ہوا۔[7] ان انگریزی ترجموں کو ملک راج آنند، جاوید اقبال، تارا چرن رستوگی، شیو کے کمار، پانس ڈی بارڈس، آزاد گلاٹی، نریندر پال سنگھ، سکریتا پال کمار، یو اَتریا شرما وغیرہ نے بے حد سراہا ہے۔[7] اسی طرح انور بھدرکی نے ”اکانت رو سورو“ (تنہائی کی چیخ) کے نام سے ان کی اردو نظموں کا اڑیا ترجمہ کیا ہے، جس کا پیش لفظ گیان پیٹھ اعزاز یافتہ اڑیا فکشن نگار پرتیبھا رائے نے لکھا ہے۔[7]
انھوں نے انفرادی یا مشترکہ طور پر بہت سے اردو شعرا کے شعری مجموعوں کو بھی مرتب کیا،[7] جیسے: امجد نجمی کے شعری مجموعوں کو ”طلوع سحر“، ”جوئے کہکشاں“[50] اور ”کلیاتِ امجد نجمی“ کے نام سے، عبد المتین جامی کے شعری مجموعہ کو ”نشاطِ آگہی“ کے نام سے اور علیم صبا نویدی کی نعتیہ شاعری اور اس پر تجزیاتی مضامین کو ”نعت نبی میں نئی جہتیں“ اور ”علیم صبا نویدی کی نعتیہ شاعری“[ا] کے نام سے مرتب کیا۔[7] نیز خاور نقیب نے ”آوازِ جارا سؤرا“ کے نام سے سیتا کانت مہاپاتر کی فارسی و اردو ترجموں پر مشتمل ایک کتاب مرتب کی، جس میں کرامت علی کرامت کے منظوم ترجمے بھی شامل ہیں۔[7] ظفر ہاشمی (متوفی: 1999ء) کی غیر مطبوعہ کتاب ”آزاد غزل - ایک تجربہ“ کے ناقابل استفادہ نسخہ کی تصحیح و نظر ثانی کی، جسے 2016ء میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی نے شائع کیا۔[51]
کرامت علی کرامت سے استفادہ کرنے والوں میں اڈیشا و بیرون اڈیشا کے بہت سے شعرا و ادبا شامل ہیں، جن میں عبد المتین جامی، خاور نقیب، اولاد رسول قدسی، قطب کامران (ابن کرامت علی کرامت)، قدرت علی قدرت، شمس الحق شمس، عاجز سونگڑوی، ہما رونق، ناصر فراز، مطلوبہ نشاط، نسرین نکہت، مطیع اللہ نازش، منیزہ آفریں، مجیب پرواز، خنجر غازی پوری، جعفر دانش وغیرہ شامل ہیں۔[16]
اتکل یونیورسٹی کی طرف سے اردو اور ریاضی کے شعبوں میں پی ایچ ڈی ڈگری کے لیے ریسرچ اسکالروں کی نگرانی بھی فرماتے تھے، کئی حضرات ان کے زیر نگرانی مندرجۂ بالا موضوعات پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر چکے ہیں، ریاضیات میں پی ایچ ڈی کرنے والوں میں باسنتی راؤت، سلمیٰ خان، دانش علی خاں اور آنجہانی سنیہہ لتابہورا شامل ہیں۔[17] اردو ادب میں پی ایچ ڈی حاصل کرنے والوں کے نام اور ان کے موضوعات یہ ہیں: (1) ”اردو اور اڑیا کے ترقی پسند فکشن کا تقابلی مطالعہ“: شیخ مبین اللّٰہ، (2) ”اردو اور اڑیا کی جدید شاعری کا تقابلی مطالعہ (1960ء - 1980ء)“: کشور جہاں، (3) ”نذیر احمد کے اردو ترجمۂ قرآن کا تجزیاتی مطالعہ“ : نسیمہ آرا نکہت۔[17] انھیں کی تحریک پر حفیظ اللہ نیولپوری نے 1984ء میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے ڈاکٹر محمد حسن (متوفی: 2010ء) کے زیر نگرانی ”اڑیسہ میں اردو“ کے موضوع پر تحقیقی مقالہ پیش کرکے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔[52]
ان کی کتاب ”لفظوں کا آکاش“ کے لیے انھیں 23 اگست 2005ء کو گوپی چند نارنگ، سابق صدر ساہتیہ اکادمی کے ہاتھوں حیدرآباد کی ایک تقریب میں ساہتیہ اکادمی ٹرانسلیشن پرائز برائے 2004ء سے نوازا گیا اور اسی کتاب کے لیے 2005ء میں بہار اردو اکیڈمی نے بھی انعام سے نوازا۔[53][54][55][56] 1973ء میں شعاعوں کی صلیب کے لیے، 1978ء میں اضافی تنقید کے لیے اور 2007ء میں شاخ صنوبر کے لیے انھیں یوپی اردو اکادمی اعزاز سے نوازا گیا، 1989ء میں ان کی مجموعی خدمات کے لیے اڈیشا اردو اکادمی اعزاز سے نوازا گیا، نیز 2012ء میں نجمی اکادمی اعزاز سے بھی نوازا گیا۔[57] 1985ء میں انھیں آل انڈیا میر اکادمی، لکھنؤ کی طرف سے میر اکادمی اعزاز ”امتیازِ میر“ سے نوازا گیا۔[58][59] اڈیشا میں علم ریاضی کی تدریس اور تصنیف و تالیف کے سلسلے میں مجموعی خدمات کے لیے 2009ء میں اڈیشا متھمیٹکل سوسائٹی نے اعزازت سے نوازا۔[60] ان سب کے علاوہ اردو اور اڑیا کے بہت سے نجی اداروں کی طرف سے انھیں اعزازات سے نوازا گیا۔[60]
اڈیشا اردو اکیڈمی، اردو لائبریری آف اڈیشا اور نجمی اکیڈمی، اڈیشا کے بانی مبانیوں میں سے تھے۔[30][41] شاخسار کٹک، نئی شناخت کٹک، ترویج سونگڑہ، نورِ جنوب چنئی اور فروغِ ادب، بھوبنیشور سے ادارتی وابستگی تھی اور اڈیشا میں ابتدائی سطح سے ثانوی سطح کے لیے اردو کی نصابی کتابوں کی تالیفی کمیٹیوں کے رکن تھے۔ اڈیشا متھمیٹکل سوسائٹی کے تاعمر رکن ہیں، نیز مختلف یونیورسٹیوں، +2 کاؤنسلوں اور سکنڈری بورڈوں کی مختلف کمیٹیوں سے وابستہ تھے۔[30][41]
رانچی یونیورسٹی کی طرف سے وہاب اشرفی کے زیر نگرانی ”کرامت علی کرامت کا فکر و فن“ کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھنے پر شیخ عزیز الرحمن عزیز کو پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی گئی۔[61]
کرامت کی تصانیف، ترجموں، نیز شعری و ادبی، تنقیدی و تجزیاتی مجموعوں اور ان کی اردو شاعری کے انگریزی و اڑیا ترجموں میں مندرجۂ ذیل کتابیں شامل ہیں:[30][62][63]
کرامت کا انتقال 5 اگست 2022ء بہ روز جمعہ کٹک میں ہوا اور 6 اگست کو قدم رسول قبرستان، درگاہ بازار، کٹک میں نماز جنازہ و تدفین عمل میں آئی۔[64][65][66][67][68][69]
{{حوالہ کتاب}}
: اس حوالہ میں نامعلوم یا خالی پیرامیٹر موجود ہے: |1=
(help)اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: مقام (link)
{{حوالہ ویب}}
: اس حوالہ میں نامعلوم یا خالی پیرامیٹر موجود ہے: |1=
(معاونت)
{{حوالہ کتاب}}
: اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: مقام (link)
{{حوالہ کتاب}}
: الوسيط غير المعروف |trans_title=
تم تجاهله يقترح استخدام |عنوان مترجم=
(help)
{{حوالہ کتاب}}
: تحقق من التاريخ في: |date=
(معاونت) والوسيط |accessdate
بحاجة لـ |مسار=
(معاونت)
{{حوالہ کتاب}}
: تحقق من التاريخ في: |date=
(معاونت) والوسيط |accessdate
بحاجة لـ |مسار=
(معاونت)
{{حوالہ کتاب}}
: تحقق من التاريخ في: |date=
(معاونت) والوسيط |accessdate
بحاجة لـ |مسار=
(معاونت)
{{حوالہ کتاب}}
: اسلوب حوالہ: نامعلوم زبان (link)