"'کمانڈ اینڈسٹاف کالج کوئٹہ"' پاکستان آرمی کے قدیم ترین اور اہم ترین اداروں میں سے ایک ہے، جو پاکستان آرمی کے میجر کے رینک یا عہدے کے افسران کو تقریباً ایک سالہ کورس میں بریگیڈیئر رینک تک ترقی کے لیے ضروری تعلیم سے مرصع کرتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ ادارہ اتحادی ممالک کے میجر سے کرنل رینک تک کے افسران کو بھی تربیت فراہم کرتا ہے۔ کورس کی مدت تقریباً ایک سال ہے اور اسے اسٹاف کورس کہا جاتا ہے۔ موجودہ پالیسی کے مطابق محض یہاں سے فارغ التحصیل طالب علم ہی لیفٹینینٹ کرنل سے آگے ترقی پا سکتے ہیں۔
شعار | "پیر شو بیا موز سعدی" |
---|---|
قسم | Constituent college of the نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی اسلام آباد |
قیام | 1905 |
کمانڈانٹ | میجر جنرل سہیل احمد خان، ہلال امتیاز ملٹری |
تدریسی عملہ | 50 افسران |
طلبہ | 400 فوجی افسران |
مقام | کوئٹہ، پاکستان |
ویب سائٹ | http://www.cscquetta.com/ |
اسٹاف کالج کوئٹہ کینٹ میں واقع ہے، جوپاکستان کے شہر کوئٹہ ،دار الحکومت صوبہ بلوچستان میں واقع ہے۔ کالج اڑک وادی کے داخلی راستے پر واقع ہے- شمال، جنوب مشرق اور جنوب مغرب میں تکاتو، مردار گھر اور چلتن کے پہاڑی سلسلے واقع ہیں، جن کی بلندی 930تا 1020 میٹر یا 10تا 11 ہزار فٹ تک ہے۔
کالج کے نشان پر دو تلواروں کے درمیان ایک طومار پر فارسی کے الفاظ 'پیر شو بیا موز سعدی' کندہ ہیں، جو کالج کا شعار بھی ہیں۔ جن کا اردو معنی ہیں' سیکھتے ہوئے عمر رسیدہ ہو جاو، سعدی'۔ سعدی ایک مشہور فارسی شاعر تھے۔
اسٹاف کالج پاکستان آرمی کے منتخب افسران کو بریگیڈ یا ڈویژن کی سطح پر سٹاف ڈیوٹی (یا تقرری بطور دفتری معاون برائے سینیئر افسر )کے لیے تربیت دینے کے علاوہ اعلٰی تر کمان کے لیے پس منظر بھی مہیا کرتا ہے۔ کالج کا موجودہ نصب العین(سنہ 1980 میں)" افسران کو جنگی تربیت دینا اور اس دوران انھیں گریڈ 2 یا میجر سطح کی تقرریوں کے لیے اور مزید تجربے کے ساتھ، کمان سنبھالنے کے لیے موزوں بنانا ہے"۔
سٹاف کالج کوئٹہ 1905 میں قائم کیا گیا۔ کوئٹہ منتقلی سے پہلے اسے طور پر دیو لالی (موجودہ بھارت) میں 1905 میں قائم کیا گیا۔
[1]
عارضی اسٹاف کالج کا قیام قبل تقسیم ہند برطانوی ہندوستانی آرمی کے افسران کے لیے برٹش اسٹاف کالج کیمبرلی کی کمی پوری کرنے کے لیے عمل میں آیا۔ اس کی وجہ لارڈ کچنر کی 1902 میں ہندوستانی آرمی کی تشکیل نو تھی، جو متعدد نئی آسامیاں پیدا کرنے کا باعث بنی۔ اسٹاف کالج کے قیام سے پہلے چھ افسران کو ہر سال برٹش اسٹاف کالج کیمبرلی بھیجا جاتا تھا۔ یہ طریقہ ناکافی تو تھا ہی، برٹش اسٹاف کالج کیمبرلی بھی ہندوستانی افسران کی نشستیں بڑھانے کو تیار نہ تھا۔
کالج میں جنگ عظیم دوم(1939-1945) سے پہلے تک دو سالہ نصاب پڑھایا گیا، لیکن 1939 میں کم کر کے بارہ ماہ اور 1940 میں چھ ماہ کر دیا گیا۔ جنگ کے خاتمے پر کالج کا نصاب دوبارہ ایک سال کا کر دیا گیا اور تقسیم ہند کے بعد ادارہ جوں کا توں برقرار رہا۔ تقسیم کے بعد اسٹاف کالج میں بہت کم تبدیلیاں لائی گئیں، بلکہ 1954 تک تو برطانوی کمانڈانٹ رہا اور پانچ برطانوی افسران تدریسی عملے میں ایک اضافی برس تک رہے۔
کالج کئی سال ایک چھوٹے ادارے کی حیثیت سے چلتا رہا۔1958 میں صرف اٹھاون طلبہ فارغ التحصیل ہوئے۔ میجر اور لیفٹینینٹ کرنل کے درمیان عہدوں کے افسران کی ضرورت پوری کرنے کی خاطر نصاب کو کسی حد تک آسان رکھا گیا، جس کی ایک وجہ دشمن کا بھی غیر ترقی یافتہ ہونا تھا۔
کالج نے بٹوارے کے بعد 'سینیئر افسران" کے لیے نصاب تشکیل دیے۔ جزواً ان پاکستانیوں کے بعض تعلیمی خلا پر کرنے کے لیے جنہیں آزادی کے بعد تیزی سے ترقیاں دی گئیں تھیں۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے 1950 میں میجر جنرل کی حیثیت سے ایسا ایک کورس کیا، بعد میں ان کورسوں کی جگہ نیشنل ڈیفینس کالج یا قومی دفاعی درسگاہ نے لے لی، جو اب نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی بن چکی ہے۔
اسٹاف کالج کا نصاب بڑی حد تک وہی ہے، جو دوسری جنگ عظیم سے قبل تھا )بمطابق سنہ 1980ء( ،اور زیادہ تر تبدیلیاں برٹش اسٹاف کالج کیمبرلی کی تقلید میں کی گئی ہیں، جسے اب تک "پیرنٹ" یا پدری ادارہ سمجھا جاتا ہے۔ ایک غیر ملکی افسر نے 1970ء کے عشرے کی ایک تحریر میں کہا کہ
” | نصاب بنیادی طور پر وہی ہے جیسا 1947ء میں ورثے میں ملا تھا اور بظاہر اس میں معمولی ترامیم ہوئی ہیں۔ جنگی تدابیر عملاً جنگ عظیم دوم والی ہیں۔ تدریس کے پروگرام میں برائے نام تبدیلیاں لائی گئی ہیں۔ 1947 ء کے زمانے کے برطانوی نظام کے بارے میں اہم معلومات حاصل ہو سکتی ہیں[2] | “ |
اوائل ایام میں اسٹاف کالج میں 'عسکری حکمتِ عملی' اور 'قانون' کی تعلیم دی جاتی تھی، جو اب نہیں دی جاتی۔
کالج پہلے یونیورسٹی آف بلوچستان سے الحاق شدہ تھا، مگر اب پاکستانی بحری اور فضائی سٹاف کالج کی طرح نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی یا لُجنۂ اعلیٰ تعلیم سے الحاق رکھتا ہے۔ کالج کامیاب طلبہ کو ایم ایس سی آرٹ اینڈ سائنس آف وارفئیر کی ڈگری عطا کرتا ہے۔
1940 میں پہلے دو ہندوستانی (بعد میں پاکستانی) مسلم افسران، کے ایم ادریس اور نذیر احمد نے اسٹاف کالج میں تعلیم پائی، پھر دسمبر 1940سے جون 1941 تک کپتان (بعد میں فیلڈ مارشل) ایوب خان طالب علم رہے۔ دو سال بعد ایک ہندوستانی مسلم افسر تدریسی عملے میں شامل ہو گیا۔
پاکستانی افسران کی پہلی پشت نے کوئٹہ میں روایتی مگر موثر تربیت حاصل کی۔ اسٹاف کالج کوئٹہ کا چل جانا ہی حیرت کا باعث اور اس ابتدائی پاکستانی پیڑھی کے پیشہ ورانہ خلوص اور محنت کا ثبوت تھا۔
کوئٹہ میں 1935 کے تباہ کن زلزلے کے بعد اسٹاف کالج کی بہت سی عمارتیں تبدیل یا دوبارہ تعمیر ہو چکی ہیں۔
کالج کی سربراہی میجر جنرل کے عہدے کے ایک افسر کرتا ہے، جن کا منصب کمانڈانٹ کہلاتا ہے۔ کالج دو بازو یا ونگز پر مشتمل ہے، جو تدریسی بازو یا انسٹرکشنل ونگ اور منتظم بازو یا ہیڈکوارٹر ونگ غیر مناسب لفظی ترجمہ صدر مقام ونگ، کہلاتے ہیں۔
تدریسی بازو کی سربراہی صدر اساتذہ یا چیف انسٹرکٹربریگیڈیر کرتے ہیں اور یہ کالج کا اہم ترین حصہ ہے۔ استاد کبیر یا سینیئر انسٹرکٹرکرنل نصابی سرگرمیوں کے ارتباط کی ذمہ داری میں صدر اساتذہ یا چیف انسٹرکٹر کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ تدریسی بازو کے چار ذیلی حصے یا ڈویژن ہیں، جن کی سربراہی کرنل عہدہ کے افسرکرتے ہیں، جو منصب استاد کبیر یا سینیئر انسٹرکٹر رکھتے ہیں۔
تحقیق اور نظریاتی تعلیم کا شعبہ فوریڈز فیکلٹی آف ریسرچ اینڈ ڈاکٹرینل سٹڈیز کی سربراہی ایک کرنل یا بریگیڈیر کے عہدے کے افسر ہوتے ہیں، جن کے ماتحت چارذیلی تحقیقی خانہ جات اور مواصلاتی شعبہ کام کرتے ہیں، جن کی سربراہی ایک کرنل یا کالج کے اساتذہ جو ڈائریکٹنگ سٹاف کہلاتے ہیں، کرتے ہیں۔[3]
کالج جنگ اور جنگ سے متعلقہ علوم کا عالمی شہرت رکھنے والا ادارہ ہے، جس میں بیک وقت 400 افسران تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ بوقت تحریرسنہ 2014۔ ان طلبہ میں عموماً 23 اتحادی ممالک سے 30 تا چالیس اتحادی افسران بھی شامل ہوتے ہیں۔ کالج اساتذہ کی تعداد تقریباً 50 کے لگ بھگ ہوتی ہے، جس کی وجہ سے استاتذہ وطلبا کا تناسب 1:7 تک ہوتا ہے، جو عالمی طور پر اعلٰی ترین معیاروں میں گنا جا سکتا ہے۔
اسٹاف کالج کی اصل خوبیوں میں جنگی علاقے کا تجزیہ، روایتی تدابیر اور طلبہ کے لیے وسیع تر پیشہ ورانہ تعلیم کا آغاز شامل ہیں۔ یہ اسم با مسمٰ٘ی ہے اور اپنے طلبہ کو بریگیڈ یا ڈویژن کی سطح پر سٹاف ورک کے لیے تیار کرنے پر زور دیتا ہے۔ یہ ادارہ پاکستان ملٹری اکیڈیمی میں دی گئی ابتدائی تربیت کے بعد تربیتی تسلسل، نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی تک برقرار رکھتا ہے۔
کا لج میں تعلیم پانے والے چند غیر ملکی افسران اسٹاف کالج کی براہ راست جنگی امور کے علاوہ دیگر امدادی پہلووں مثلاً علم ترسیل رسد یا لاجسٹکس سے نسبتاً بے توجہی پر نکتہ چینی کرتے ہیں، کیونکہ مقابلتاً مغرب کے اسی نوعیت کے اسکول تخمینی تجزیے کرنے کی زیادہ حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ امر مسلم نہیں کہا جا سکتا۔ اگر یہ درست ہے تو اس سے کم چمک والی فوجی شاخوں مثلاً آرمی آرڈینینس کور، آرمی سپلائی کور اور کور آف الیکٹریکل اینڈ مکینیکل انجینئرزوغیرہ سے عدم دلچسبی ظاہر ہوتی ہے – شاید اس امر کی وجہ پاکستان کی مستقبل میں مختصر جنگوں کی امید ہے، جو رسد و رسائل پر کم منحصر ہوں گی۔
8-12 سالہ خدمات کے حامل میجر، جن کو امتحانی مقابلہ اور پیشہ ورانہ کارکردگی کی بنیاد پر سالانہ منتخب کیا جاتا ہے۔[4]
|
سیٹاڈیل کالج کا شمارہ ہے، گو نظریاتی اور تصوراتی مسائل اور پیشہ ورانہ اہمیت کے دیگر معاملات پر خیالات کے اظہار کے لیے ایک مجلس فراہم کرتا ہے۔ یہ جنرل ضیاء الحق، پاکستان کے اس وقت کے صدر اور چیف آف آرمی سٹاف کی ہدایات پر، ایک خصوصی پیشہ ور جریدہ کے طور پر، 1984 ء میں جاری کیا گیا تھا۔ نام سیٹاڈیل علاقائی اور نظریاتی دونوں جہتونں کو ظاہر کرتا ہے۔ اس جریدے سے پہلے باقاعدگی سے 1947 کے بعد سے، اس طرح کی نوعیت کے مضامین آول پائی (1921)، آول( 1922-78 ) اور ریویو ( 1979-83 ) کے نام ہے مختلف اوقات میں کالج کی سالانہ کتاب کے طور پر شائع کیے جاتے رہے ہیں۔[11]
Our troops are already present in Tabuk and some other cities of Saudi Arabia.
Pakistan already has 1,180 troops in Saudi Arabia under a 1982 bilateral agreement. The deployed troops are mostly serving there in training and advisory capacity.
However, security experts say that being an ally of Saudi Arabia, Pakistan is part of a security cooperation agreement under which about 1,000 Pakistani troops are performing an "advisory" role to Riyadh and are stationed in Saudi Arabia and other Gulf countries.
اسٹیون پی کوہن (1998)۔ "3، افسر کور"۔ پاکستان آرمی، تاریخ و تنظیم۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس۔ صفحہ: 77 تا 80