گئودان (ناول) | |
---|---|
(ہندی میں: गोदान) | |
مصنف | پریم چند |
اصل زبان | ہندی |
موضوع | بھارت ، غربت ، ذات ، امید ، گائے |
تاریخ اشاعت | 1936 |
او سی ایل سی | 17509087 |
درستی - ترمیم ![]() |
گئودان پریم چند کا ناول ہے، 1936ء میں شائع ہوا۔ اسے پریم چند کا سب سے بہترین ناول مانا جاتا ہے۔ اس میں ہندوستان کے کسانوں کی تکلیف دہ زندگی کو دکھایا گیا ہے۔ پریم چند نے دہقانوں پر ہونے والے ظلم کی نقشہ کشی کی ہے۔ پریم چند نے پہلے اردو زبان میں لکھنا شروع کیا تھا لیکن آہستہ آہستہ وہ ہندی زبان کی جانب بڑھتے گئے جبکہ گئودان تو سب سے پہلے دیوناگری رسم الخط میں لکھا گیا تھا اور اسے اقبال بہادر ورما ساحر نے اردو میں ڈھالا تھا لیکن اب بھی اسے اردو ناول ہی قرار دیا جا سکتا ہے اور وہ بھی بہترین اردو ناولوں میں سے ایک۔[1]
یہ ناول ہندوستان کی دیہی زندگی کی عکاسی کرتا ہے اور کسانوں کی مشکلات، ظلم و ستم اور جدوجہد کو بیان کرتا ہے۔ اس ناول کے مرکزی کردار، ہورہی مہتو، ایک غریب کسان ہیں جو زندگی بھر اپنے خاندان کی بھلائی کے لیے محنت کرتا ہے اور سب کچھ قربان کرتا ہے۔
ہورہی مہتو کی کہانی دیہی ہندوستان کی عکاسی ہے جو جاگیردارانہ نظام اور استحصالی قوتوں کے زیر سایہ جیتی ہے۔ ہورہی کی بیوی، دھنیا، بھی ایک اہم کردار ہے جو اپنی طاقت اور حوصلے سے اپنے خاندان کی مدد کرتی ہے۔ ناول کے دیگر کرداروں میں روپہ، گوبردھن، جھونریا اور مہراج شامل ہیں۔
"گئودان" میں دیہی زندگی کی مشکلات، کسانوں کی جدوجہد، استحصال، مذہب، طبقاتی تفریق اور دیگر سماجی مسائل کا ذکر کیا گیا ہے۔ منشی پریم چند نے اس ناول میں معاشرتی اور اقتصادی مسائل کو حقیقی اور گہرائی سے پیش کیا ہے۔ [2]
"گئودان" کو ہندوستانی ادب کا ایک شاہکار مانا جاتا ہے اور یہ منشی پریم چند کے مشہور ترین ناولوں میں شامل ہے۔ اس ناول نے پریم چند کو ہندی اور اردو ادب میں ایک نمایاں مقام دلایا۔ [3]