تاریخ گواہ ہے کہ مغل بادشاہ جس راستے سے بھی گذرے اور جہاں جہاں ٹھہرے وہاں وہاں اپنے نقش ثبت کرتے چلے گئے۔ برصغیر پاک و ہند کی تاریخ پر نگاہ دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ عدل و انصاف کا معاملہ ہو یا جنگ و جدل کا، عشق و محبت ہو یا سیاست، سیر و سیاحت ہو یا شکاریات، فن دستکاری ہو یا فن تعمیر، مغلوں نے ہر میدان میں اپنی مہارت و کاریگری حسن نظر اور انفرادیت کا لوہا منوایا۔ فن تعمیر میں مغلوں نے کہیں اپنا انداز اپنایا اور کہیں اس میں مقامی رنگ کی اس خوبصورتی سے آمیزش کی کہ اس دلکش امتزاج سے تاج محل، شاہی قلعہ، بادشاہی مسجد، مقبرہ جہانگیر، شالا مار باغ، لال قلعہ اور ہرن مینار جیسے کئی نادر شاہکار وجود میں آئے۔ آج مغلوں کا دور حکومت قصہ پارینہ بن چکا ہے لیکن ان کی تعمیر کردہ تاریخی اور بے مثال عمارتوں سے حوادث زمانہ کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور وہ آج بھی ہر خاص و عام سے داد تحسین وصول کر رہی ہیں۔ خاص طور پر ہرن مینار پوری دنیا میں اپنی نوعیت کی یکتا مثال ہے۔ برطانوی دور حکومت میں انگریز سیاحوں اور حکمرانوں نے ہرن مینار کی دل کھول کر تعریف کی اور اسے انسان اورر جانور دوستی و پیار کا لازوال نمونہ قرار دیا۔ ہرن مینار، صوبہ پنجاب کے ضلع شیخوپورہ سابقہ ویرک(Virk)گھڑ میں واقع ہے۔ تاریخی شہر شیخوپور کی بنیاد عظیم شہنشاہ محمد جہانگیر نے رکھی۔ جہانگیر کی ماں اسے پیار سے شیخوبابا کے نام سے پکارتی تھی اور اس مناسبت سے اس شہر کا نام شیخوپورہ رکھا گیا۔ شہنشاہ محمد جہانگیر کے عہد حکومت 1605) ء تا(1627 میں شیخوپورہ کو شاہی شکار گاہ کی حیثیت حاصل تھی کیونکہ یہ علاقہ بہت سرسبز و شاداب تھا اور شیخوپورہ کے وسیع و عریض اور گھنے جنگل میں انواع و اقسام کے جانور بکثرت ملتے تھے شہنشاہ محمد جہانگیر کی دعوت پر دور دور سے مہاراجے اور نواب شکار کھیلنے کے لیے شیخوپورہ آتے تھے۔ ہرن مینار کا یہ علاقہ کبھی جنگلی گھاس اور گھنے جنگلات سے گھرا ہوا تھا جہاں ہرنوں کے غول چوکڑیاں بھرا کرتے تھے یہ مغل شہنشاہ محمد جہانگیر کی شکار گاہ تھی۔ کہتے ہیں کہ شہنشاہ محمد جہانگیر کے پاس ایک ہنس راج نامی ہرن تھا۔ جو بادشاہ کو بہت پسند تھا وہ ہرن مر گیا تو جہانگیر نے اس کی قبر پر ایک مینار تعمیر کروایا جس کا نام ہرن مینار پڑ گیا۔ اس بات کا حوالہ جہانگیر کی اپنی خودنوشت تزک جہانگیری میں بھی ملتا ہے جہانگیر لکھتا ہے کہ’’ ذوالحج منگل کے روز جہانگیر پورہ (شیخوپورہ) میں پڑائو ڈالا جو شکار کھیلنے کے لیے میرا پسندیدہ مقام تھا۔ اس جگہ ہنس راج نامی ایک ہرن کی قبر اور مینار ہے جو جہانگیربادشاہ کے حکم سے تعمیر کیا گیا ہے یہ ہرن سدھائے ہوئے ہرنوں کی لڑائی اور صحرائی ہرنوں کے شکار میں مدد دینے میں بے مثال تھا۔‘‘ 1606ء میں شہنشاہ محمد جہانگیر نے اس شکار گاہ میں ایک ہرن پکڑا اور اسے شاہی جانوروں کے ساتھ شامل کرنے کا حکم دیا۔ یہ ہرن بہت معصوم اور خوبصورت تھا۔ شہنشاہ محمد جہانگیر اسے پیار سے ہنس راج کہتا تھا۔ ہنس راج نے چند ہی ہفتوں میں جنگلی خصلتیں چھوڑ کر پالتو جانوروں کی سی عادتیں اپنا لیں اور جہانگیر کی آنکھ کا تارا بن گیا۔ 1607ء میں ہنس راج کسی بیماری کی وجہ سے مر گیا۔ دوسری بات یہ بھی مشہور ہے کہ شہنشاہ محمد جہانگیر شکار کھیل رہے تھے غلطی سے اپنے ہی چھوڑے ہوئے تیر کا نشانہ پالتو ہرن (ہنس راج) کو لگ گیا اور اس کی موت ہو گئی۔ اس کی موت کا جہانگیر کو بہت دکھ ہوا اور وہ اس کے غم میں کئی دن اداس رہا۔1608ء میں شہنشاہ محمدجہانگیر نے ہنس راج کی قبر پر ایک بلند و بالا مینار تعمیر کرنے کا حکم دیا جہانگیر کے ماہر تعمیرات نے سارے کام میں خود دلچسپی لی اور قبر کا پتھر بھی اس کے حکم سے ہرن کی شکل کا بنوایا گیا۔ ہرن کی قبر پر ایک کتبہ عہد جہانگیری کے مشہور خطاط ملا محمد مینا کشمیری نے کندہ کیا۔ یہ عمارت جو سرسبز و شاداب جنگل میں واقع ہے چاروں طرف سے ایک تالاب میں گھری ہوئی ہے دراصل شہنشاہ محمد جہانگیر نے شکار کھیلنے کے لیے بنوائی تھی۔ یہ تین منزلہ عمارت جو درمیان میں واقع ہے اور جس تک پہنچنے کے لیے ایک راستہ بنایا گیا ہے شاہی آرام گاہ تھی جس میں بادشاہ جہانگیر اور ملکہ نور جہاں آرام کیا کرتے تھے خاص طور پر چاندنی راتوں میں یہاں کا نظارہ بڑا ہی دلکش ہوتا تھا۔ آرام گاہ کی بلندی نوے فٹ ہے اور اوپر تک پہنچنے کے لیے تقریباً سو سیڑھیاں چڑنی پڑتی تھیں۔مینار کی شکل گول اور بلندی کی جانب مخروطی ہے اس میں مناسب مقامات پر176 روزن بنائے گئے ہیں تاکہ تازہ ہوا اور روشنی بخوبی اندر آ سکے زمین پر مینار کا قطر 33 فٹ جبکہ چوٹی پر 22 فٹ کے قریب ہے مینار کے اندر داخل ہونے کا راستہ مشرق کی جانب سے ہے اندرونی سیڑھیوں کی تعداد ایک سو کے قریب ہے۔ اندر سے گھومتی بل کھاتی ہوئی سیڑھیاں اس کی چھت پر جا نکلتی ہیں۔ سیڑھیاں چونے کے پتھر سے تیار کی گئی ہیں مینار کے سامنے مشرقی جانب ایک وسیع و عریض تالاب ہے۔ تالاب کے اردگرد چونے کے پتھر سے تعمیر شدہ خوبصورت چبوترے ہیں۔ تالاب کے وسط میں ہشت پہلو بارہ دری ہے تالاب سے بارہ دری تک ایک پختہ راستہ جاتا ہے۔ تخت نشین ہونے کے بعد شہنشاہ جہانگیر اپنی ملکہ نور جہاں کے ہمراہ اکثر شکار کھیلنے ان جنگلوں میں آتا اور قیام کرتا۔نورجہاں کو گلاب کے پھولوں سے بہت لگاؤ تھا شیخوپورہ کے مضافات میں آج بھی گلاب کے پھولوں کے باغات موجود ہیں اور اس کا کاروبار بہت منظم اور وسیع پیمانے پر ہوتا یے شیخوپورہ کا ہرن مینار ملکہ نورجہاں اور شہنشاہ محمد جہانگیر کی لازوال محبت کا ثبوت ہے۔