ہیمنت کرکرے | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 12 دسمبر 1954ء ناگپور |
وفات | 26 نومبر 2008ء (54 سال)[1] ممبئی |
شہریت | بھارت |
جماعت | انڈین نیشنل کانگریس |
عملی زندگی | |
پیشہ | پولیس افسر |
ملازمت | بھارتی پولیس سروس |
اعزازات | |
اشوک چکر (2009)[2] |
|
درستی - ترمیم |
ہیمنت کرکرے (12 دسمبر 1954ء – 27 نومبر 2008ء) ممبئی دہشت گردی مخالف دستے کے صدر تھے۔ انھیں 2008ء کے ممبئی حملوں میں سینے پر تین گولیاں داغ کر قتل کیا گیا۔[3] 26 جنوری 2009ء کو ان کی بہادری پر انھیں اشوک چکر سے نوازا گیا۔[4]
کرکرے جنوری 2008ء میں کے پی رگھو وَنشی کے بعد اے ٹی ایس (دہشت گردی مخالف دستہ) کے صدر بنے تھے لیکن کرکرے کے قتل کے بعد دوبارہ رگھو ونشی کو صدر بنا دیا گیا۔ تھانے، واشی اور پنویل کے سلسلہ بم دھماکوں کے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے نیز 2008ء کے مالیگاﺅں بم دھماکوں کی غیر جانبدارانہ تفتیش اور ان کے کلیدی مجرموں کو بے نقاب کرنے کا سہرا ہیمنت کرکرکے کے سر جاتا ہے۔[5]
ہیمنت کرکرے کی ابتدائی تعلیم چٹرنجن داس مونسپل پرائمری اسکول، وردھا میں ہوئی، بعد ازاں متوسط اور اعلیٰ تعلیم کے لیے انھیں نیو انگلش ہائی اسکول، وردھا میں داخل کیا گیا۔ سنہ 1975ء میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، ناگپور سے انھوں نے بی ای مکمل کیا۔ اس کے بعد وہ حکومت ہند کی نیشنل پروڈکٹی ویٹی کاؤنسل اور ہندوستانی یونیولیور لمیٹڈ میں کام کرتے رہے۔[6]
سنہ 1982ء میں وہ انڈین پولیس سروس میں داخل ہوئے۔ جنوری 2008ء میں اے ٹی ایس صدر بننے سے قبل وہ ممبئی پولیس کے جوائنٹ کمشنر تھے۔[7] نیز انھوں نے آسٹریا میں رہ کر سات برس بھارت کی خفیہ ایجنسی را میں بھی کام کیا۔ سابق پولیس افسر وائے سی پوار کے مطابق کرکرے پولیس کے حلقوں میں انتہائی موثر افسر سمجھے جاتے تھے۔
8 ستمبر 2006ء کو مہاراشٹر کے شہر مالیگاؤں میں سلسلہ وار بم دھماکے ہوئے۔ پولیس نے ان دھماکوں کے الزام میں مسلم نوجوانوں کو گرفتار کر لیا جبکہ حقیقت میں ان دھماکوں کے شکار مسلمان تھے اور جن گاڑیوں پر بم رکھے گئے تھے وہ ہندو ناموں سے مندرج تھے۔[8] 29 ستمبر 2008ء کو موڈاسا، گجرات اور مالیگاﺅں، مہاراشٹر میں تین بم دھماکے ہوئے جن میں آٹھ افراد جاں بحق اور اسی زخمی ہوئے۔ نیز ان کے بعد احمدآباد، گجرات میں متعدد سالم بم بھی ملے۔ اے ٹی ایس کے صدر کی حیثیت سے ہیمنت کرکرے نے مالیگاﺅں بم دھماکوں کی تفتیش کا آغاز کیا۔[9] اکتوبر 2008ء کے اواخر میں اے ٹی ایس نے گیارہ مشکوک افراد کو گرفتار کیا، یہ سب ہندو تھے، ان میں قابل ذکر افراد اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کی سابق طلبہ رہنما سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر، سوامی امریتانند، وظیفہ یاب میجر رمیش اپادھیائے اور حاضر سروس فوجی افسر لیفٹیننٹ کرنل پرساد شری کانت پروہت تھے۔[10][11][12] ملزموں میں سے بیشتر افراد کا تعلق شدت پسند ہندوتو حلقے ابھینو بھارت سے تھا۔ کرکرے کے زیر قیادت اے ٹی ایس نے پہلی مرتبہ بھارت میں موجود ہندوتو تنظیموں کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کو بے نقاب کیا، اسی کے بعد سیاسی افراد اسے ہندوتو دہشت گردی یا زعفرانی دہشت گردی سے تعبیر کرنے لگے۔[13][14]
حزب مخالف بشمول بھارتیہ جنتا پارٹی و شیو سینا اور ہندو تنظیموں نے الزام دھرا کہ یہ گرفتاریاں موجودہ حکومت کے دباؤ میں کی گئی ہیں تاکہ ان کے ذریعہ بھارت کی مسلم آبادی کو خوش کیا جا سکے۔[15][16] چنانچہ ان سیاسی جماعتوں نے ہیمنت کرکرے کو اس سمت تفتیش کرنے کی بنا پر ملک کا غدار قرار دیا۔ گجرات کے اُس وقت کے وزیر اعلی نریندر مودی نے اے ٹی ایس پر فوج کے حوصلے کو پست کرنے کا الزام عائد کیا۔[14] راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے متعدد رہنماؤں نے کہا کہ اے ٹی ایس کو سنگھ پریوار پر حملے کے لیے بطور آلہ استعمال استعمال کیا جا رہا ہے۔[9][17]
26 نومبر 2008ء کو ہیمنت کرکرے دادر میں واقع اپنے مکان پر عشائیہ تناول کر رہے تھے کہ نو بج کر پینتالیس منٹ پر انھیں فون کے ذریعہ چھترپتی شیواجی ٹرمنس (سی ایس ٹی) پر ایک دہشت گردانہ حملے کی اطلاع ملی۔ انھوں نے خبر کی تصدیق کے لیے ٹیلی ویژن شروع کیا اور اپنے ڈرائیور اور محافظوں کے ساتھ فوراً سی ایس ٹی کے لیے روانہ ہو گئے۔ وہان پہنچ کر انھوں نے بلٹ پروف جیکٹ اور ہیلمٹ پہنا اور پلیٹ فارم نمبر 1 پر پہنچے لیکن اسے خالی پایا۔ اس وقت انھیں اطلاع دی گئی کہ دہشت گرد آزاد میدان پولیس تھانے کے پاس واقع کاما اینڈ الب لیس ہسپتال کی طرف گئے ہیں۔ اس وقت رات کی تاریکی میں کارروائی بہت مشکل تھی کیونکہ دہشت گرد تربیت یافتہ اور فدائی حملوں کے ماہر معلوم ہوتے تھے۔ کچھ حوالداروں کے ساتھ پیچھے کے دروازے سے یہ افسران کاما ہسپتال میں داخل ہوئے اور کچھ حوالداروں کو دروازے کے پاس ہی پہرہ دینے کے لیے چھوڑ دیا جبکہ بقیہ کوالیس کار میں سوار ہو گئے۔ ایک پولیس انسپکٹر وجے سالسکر نے کار کے ڈرائیور سے کہہ کر گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ خود سنبھال لی۔ اسی وقت انھیں لاسلکی پر اطلاع ملی کہ دہشت گرد ایک سرخ کار کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں۔ اس سرخ کار کی تلاش میں کرائم برانچ کے دفتر سے رنگ بھون کی جانب جیسے ہی وہ مڑے انھیں کارپوریشن بینک کے اے ٹی ایم کے پاس دہشت گرد بھاگتے ہوئے نظر آئے۔ اشوک کامٹے یا سالسکر یا دونوں نے گولی چلائی، گولی دہشت گرد کے بازو میں لگی تو اس کے ہاتھ سے اے کے 47 گر گئی۔ یہ زندہ گرفتار ہونے والا تنہا دہشت گرد اجمل قصاب تھا۔ اس موقع پر اچانک دوسرے دہشت گرد اسمعیل خان نے ان پر گولیوں کی باڑھ داغ دی۔ اس باڑھ میں معاون پولیس انسپکٹر جادھو جاں بحق ہوا۔[18]
ہیمنت کرکرے، اشوک کامٹے، سالسکر اور دیگر افراد 27 نومبر 2008ء کے حملوں میں کرائم برانچ کے دفتر کے بالکل قریب سینٹ زیویئر کالج اور رنگ بھون کے درمیان میں واقع پتلی سڑک پر مارے گئے۔
انڈین ایکسپریس نے کانسٹیبل ارون جادھو کا بیان نقل کیا ہے۔ حملوں کے وقت ارون کرکرے کے ساتھ تھے۔[19] تین افسران اور چار کانسٹیبلوں کو یہ اطلاع ملی کہ کاما ہسپتال میں ہونے والی فائرنگ میں سدانند زخمی ہوئے ہیں۔ انھوں نے کوالیس کار لی اور اس سمت چل پڑے۔ سالسکر ڈرائیو کر رہے تھے اور کامٹے بغل والی نشست پر تھے جبکہ کرکرے درمیان میں تھے۔ چار کانسٹیبل بشمول جادھو پچھلی نشستوں پر سوار تھے۔ پانچ منٹ بعد دو دہشت گرد کسی درخت کی اوٹ سے باہر آئے اور اے کے 47 سے فائر کھول دیا۔ اس اچانک حملے میں جادھو کو چھوڑ کر بقیہ چھ پولیس والے مارے گئے۔ دونوں حملہ آور قریب پہنچے، گاڑی سے تینوں افسروں کی لاشوں کو نکال کر سڑک پر ڈال دیا اور میٹرو سینما کی طرف بڑھ گئے۔
مالیگاﺅں بم دھماکے کی ملزمہ سادھوی پرگیہ سنگھ جسے اس معاملے میں ممبئی ہائی کورٹ سے ضمانت ملنے سے قبل آٹھ برس کی سزا سنائی گئی تھی، اس نے ہیمنت کرکرے پر تشدد کا الزام عائد کیا اور کہا کہ اس نے میرے منہ میں جبراً گوشت کا ٹکڑا رکھا، میرے مذہبی اسباب چھینے اور پاؤں توڑے۔[20]