ذاتی معلومات | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
مکمل نام | محمد یونس احمد | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
پیدائش | جالندھر، پنجاب، ہندوستان | 20 اکتوبر 1947|||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بلے بازی | بائیں ہاتھ کا بلے باز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
گیند بازی | بائیں ہاتھ کا گیند باز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
تعلقات | سعید احمد شگفتہ صدیق فرخندہ احمد نوید احمد انور احمد ندیم احمد نصیر احمد شمیم احمد عنایت اللہ احمد | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بین الاقوامی کرکٹ | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
قومی ٹیم |
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
پہلا ٹیسٹ (کیپ 62) | 24 اکتوبر 1969 بمقابلہ نیوزی لینڈ | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
آخری ٹیسٹ | 4 مارچ 1987 بمقابلہ بھارت | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
پہلا ایک روزہ (کیپ 61) | 18 فروری 1987 بمقابلہ بھارت | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
آخری ایک روزہ | 20 مارچ 1987 بمقابلہ بھارت | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
کیریئر اعداد و شمار | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
ماخذ: [1]، 21 اگست 2012 |
محمد یونس احمد انگریزی:Mohammad Younis Ahmed(پیدائش: 20 اکتوبر 1947ء جالندھر (اب جالندھر)، پنجاب، ہندوستان) سابق کرکٹر ہیں [1] جنھوں نے1969ء اور 1987ء کے درمیان 4 ٹیسٹ میچ اور 2 ایک روزہ بین الاقوامی میچ کھیلے وہ بنیادی طور پر ایک مڈل آرڈر بلے باز تھے جس نے پاکستان ایجوکیشن بورڈ، کراچی، لاہور، پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز، سرے جو 1971ء میں کاؤنٹی چیمپئن شپ جیتنے والی ٹیم تھی کا حصہ رہنے کے ساتھ ساتھ، وورسٹر شائر، گلیمورگن اور جنوبی آسٹریلیا کے لیے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی باوجود اس کے کہ وہ ایک ایسے کھلاڑی تھے جس نے اپنے پورے کیرئیر میں مسلسل کارکردگی کا مظاہرہ کیا لیکن ٹیسٹ میچوں میں اس کا وقفہ، 17 سال اور 111 دن (104 ٹیسٹ، تاریخ کا چوتھا طویل ترین تھا اور اس کے بعد جزوی طور پر 1973ء کے آخر میں DH Robins' XI کے ساتھ جنوبی افریقہ کے دورے میں ان کی شرکت ممکن ہوئی تھی۔ 1958ء سے 1973ء کے درمیان پاکستان کے لیے کھیلنے والے سعید احمد کے چھوٹے بھائی، یونس نے مارچ 1962ہ میں ساؤتھ زون کے خلاف پاکستان ایجوکیشن بورڈ کے لیے 14 سال کی عمر میں فرسٹ کلاس ڈیبیو کیا تھا صرف تین سال بعد وہ اپریل 1965ء میں سرے کاونئی کے لیے کرکٹ شروع کرنے کے لیے انگلینڈ پہنچے۔ انھوں نے اس کاؤنٹی کے لیے اپنا پہلا فرسٹ کلاس میچ دو ماہ بعد جنوبی افریقہ کی ٹورنگ پارٹی کے خلاف کھیلا اور 1967ء میں کاؤنٹی چیمپئن شپ کا آغاز کیا۔ وہ 1978ء تک سرے کے ساتھ رہے اور 1971ء میں کاؤنٹی چیمپئن شپ جیتنے والی ٹیم کا کلیدی حصہ بن گئے۔ تاہم کلب کی جانب سے اپنے معاہدے کی تجدید نہ کرنے کے بعد انھوں نے سخت حالات میں سرے کاونٹی کو چھوڑنے کا سخت فیصلہ کیا تھا جسے آج بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اوول چھوڑنے کے بعد یونس کو ووسٹر شائر نے سائن کیا اور وہ 1979ء اور 1983ء کے درمیان چار سال تک وہاں کھیلے۔ تاہم اس کاؤنٹی نے بھی ان کا معاہدہ منسوخ کر دیا جب یہ الزامات سامنے آئے کہ یونس احمد نے اپنی کاؤنٹی کے ہارنے کے لیے شرطیں لگائی تھیں مگر ان الزامات کو یونس نے یکسر انداز میں مسترد کیا تھا۔ یونس احمد نے اپنے انگلش کھیل کے کیریئر کا اختتام گلیمورگن کاونٹئی سے کیا جہاں وہ اپنے ہم وطن جاوید میانداد کے ساتھ کھیلے۔ یونس احمد 1972/73ء کے سیزن میں جنوبی آسٹریلیا کے لیے بھی کھیلت، انھوں نے ڈونالڈ بریڈمین کی سفارش پر غیر ملکی کھلاڑی کے طور پر کام کیا۔ بدقسمتی سے، وہ اپنے ساتھیوں میں مقبول نہیں تھے، انھوں نے 1969ء میں پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کے لیے کھیلتے ہوئے قائد اعظم ٹرافی جیتی، یقیننا وہ ایسے میچز تھے جنہیں یونس احمد نے اپنے بین الاقوامی ڈیبیو سے قبل کنڈیشنز کی عادت ڈالنے کے لیے استعمال کیا۔
1969ء سے 1987ء کے عرصہ میں یونس احمد نے پاکستان کی طرف سے 4 ٹیسٹ میچوں میں حصہ لیا۔یونس احمد نے 1969ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف دو ٹیسٹ میچ کھیلے۔ان کو 1969ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف کراچی ٹیسٹ میں ٹیم کا حصہ بنایا گیا تھا۔ پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے 220 رنز سکور کیے تھے۔ سعادت محمد 69 رنز کے ساتھ نمایاں سکورر تھے۔ یونس احمد نے تیسرے نمبر پر کھیلتے ہوئے صرف 8 رنز سکور کیے۔ 25 منٹ تک کریز کے دوران قیام کیا لیکن جیف ہاروتھ کی ایک گیند پر ڈولنگ کو ایک آسان سا کیچ دے کر پویلین لوٹ گئے۔ دوسری اننگز میں یونس احمد سنبھل کر کھیلے اور انھوں نے 8 وکٹوں پر 283 رنز ڈکلیئر کرنے سے پہلے 62 رنز بنا لیے تھے۔ 11 چوکوں کی مدد سے 180 منٹ میں انھوں نے سنبھل کر بیٹنگ کی۔ تاہم یہ ٹیسٹ بغیر کسی نتیجے کے اختتام پزیر ہوا۔ نیوزی لینڈ کے خلاف اگلے ٹیسٹ میں وہ ایک اننگ میں صرف 19 رنز ہی بنا سکے تاہم، پاکستان کرکٹ بورڈ نے 1973ء کے آخر میں DH Robins' XI کے نسل پرست جنوبی افریقہ کے دورے میں شرکت کرنے پر ان پر کسی بھی قسم کی کرکٹ میں حصہ لینے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ تاہم بعد ازاں ان پر یہ پابندی 1979ء میں واپس لے لی گئی، لیکن یونس احمد 1987ء تک بین الاقوامی ٹیسٹ کرکٹ میں واپس نہیں آئے۔یونس احمد کو 1987ء میں 18 سال کے طویل عرصہ کے بعد ایک مرتبہ پھر ٹیم میں جگہ دی گئی جب ان پر لگی ہوئی پابندی کو ہٹا لیا گیا تھا۔ یہ بھارت کے خلاف 2 ٹیسٹ میچ تھے جو پاکستان نے 1987ء میں بھارت کا دورہ کیا تھا۔ جے پور کے پہلے ٹیسٹ میں انھوں نے 14 رنز بنائے جبکہ احمد آباد کے آخری ٹیسٹ میں پہلی اننگ میں 40 اور دوسری اننگ میں 34 ناٹ آئوٹ رنز بنا کر انھوں نے اپنے ٹیسٹ کیریئر کا اختتام کیا۔
یونس احمد نے 4 ٹیسٹ میچوں کی 7 اننگز میں ایک مرتبہ ناٹ آئوٹ رہتے ہوئے 177 رنز بنائے۔ ان کا سب سے زیادہ سکور 62 تھا جبکہ انھیں فی اننگ اوسط 29.50 حاصل ہوئی جبکہ 2 ایک روزہ میچوں میں انھوں نے دو اننگز میں بغیر آئوٹ ہوئے 84 رنز بنائے جس میں 58 ان کی کسی ایک اننگ کا سب سے زیادہ سکور تھا۔ 42.00 کی اوسط کے لیے انھوں نے 6 چوکے بھی لگائے۔ یونس احمد کے فرسٹ کلاس کیریئر کا جائزہ لیں تو انھوں نے 460 میچوں کی 762 اننگز میں 118 مرتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر 26073 رنز سکور کیے۔ 40.48 کی اوسط کے ساتھ بننے والے اس سکور میں 221 ناقابل شکست ان کی کسی ایک اننگ کا سب سے زیادہ انفرادی سکور تھا۔ 46 سنچریوں اور 144 نصف سنچریاں اس سکور کے بنانے میں معاون ثابت ہوئی تھیں جبکہ 244 کیچز بھی ان کی عمدہ کارکردگی کے عکاس تھے۔ انھوں نے فرسٹ کلاس کرکٹ میں 2101 رنز دے کر 49 وکٹیں بھی حاصل کر رکھی تھیں۔ 4/10 ان کی بہترین بولنگ پرفارمنس تھی جس کی مدد سے انھیں 42.87 رنز فی وکٹ اوسط حاصل ہوئے[2]
پیش نظر صفحہ سوانح پاکستانی کرکٹ سے متعلق سے متعلق موضوع پر ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں مزید اضافہ کرکے ویکیپیڈیا کی مدد کرسکتے ہیں۔ |