یہودیت میں شادی کو مرد اور عورت کے درمیان میں ایک ایسا بندھن تصور کیا جاتا ہے جس میں خدا بذات خود شامل ہے۔[1] گوکہ ان کے یہاں شادی کا واحد مقصد افزائش نسل نہیں ہے لیکن اس عمل کو افزائش نسل کے ربانی حکم کے پورا کرنے کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔[2] اسی مقصد کے پیش نظر جب مرد و عورت شادی کے رشتے میں منسلک ہوتے ہیں تو انھیں یک جان دو قالب سمجھا جاتا ہے۔ اگر کوئی یہودی مرد شادی نہ کرے تو تلمود کی نگاہ میں وہ ایک ”نامکمل“ مرد ہے۔[3][4] عصر حاضر میں بعض یہودی فرقے ہم جنسی کی شادی کو درست سمجھتے اور افزائش نسل کے مقصد کو کمتر خیال کرتے ہیں۔[5][6]
یہودیت کے ازدواجی نظام پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے یہاں عورت کا مقام نہایت پست ہے اور اس کی وجہ یہ نظریہ ہے کہ حوا نے آدم کو ممنوعہ پھل کھانے پر اکسایا اور اسی وجہ سے وہ جنت سے نکالے گئے۔ اور اسی بنا پر عورت کو مرد کی غلامی، حیض جیسی ناپاکی اور حمل کے درد کی سزا ملی۔ بائبل میں ہے:
مَیں تیرے دردِ حمل کو بہت بڑھاؤں گا۔ تُو درد کے ساتھ بچّے جنے گی اور تیری رغبت اپنے شَوہر کی طرف ہوگی اور وہ تُجھ پر حُکومت کرے گا۔[7]
”تمدن عرب“ میں یہودی معاشرہ میں عورت کی حیثیت ان سخت الفاظ میں بیان کی گئی ہے:
”گھوڑا اچھا ہو یا برا اسے مہمیز کی ضرورت ہے اور عورت اچھی ہو یا بری اسے مار کی ضرورت ہے۔“[8]
یہودیت میں عورت کی شادی خاوند کی خدمت اور اولاد پیدا کرنے کے لیے ہے۔ اگر کسی کے یہاں کئی سال تک اولاد نہ ہو تو وہ بلا جھجک دوسری شادی کر سکتا ہے اور اس کام کے لیے اسے اپنی بیوی سے کچھ کہنے سننے کی ضرورت نہیں ہے۔ بائبل میں ہے:
”بِیوِیاں کرو تاکہ تُم سے بیٹے بیٹِیاں پَیدا ہوں اور اپنے بیٹوں کے لِیے بِیوِیاں لو اور اپنی بیٹِیاں شَوہروں کو دو تاکہ اُن سے بیٹے بیٹِیاں پَیدا ہوں اور تُم وہاں پَھلو پُھولو اور کم نہ ہو۔“[9]
نکاح کے قانون کی طرح طلاق کا قانون بھی یہودی روایات میں عورت کی مظلومیت کی داستاں سناتا ہے۔ یہودی مرد جب چاہے چھوٹی سی لغزش پر طلاق دے دیتے اور ان کو یہ حق مذہب نے دیا تھا۔ بقول مولانا ابو الکلام آزاد:
”یہودیوں کو ان کے مذہبی تعلیمات کے ذریعے سے یہ حقوق حاصل ہیں کہ وہ جب چاہیں ایک ادنٰی سی لغرش پر عورت کو گھر سے نکال باہر کر سکتے ہیں۔“[10]
اگر کسی عورت کا شوہر مر جاتا تو اسے دوسری شادی کا حق تو تھا مگر صرف اپنے شوہر کے بھائی سے۔ اس کے علاوہ کسی اور سے شادی نہیں کر سکتی تھی اور اسے اس شادی پر مجبور کیا جاتا تھا۔ یہودیت میں تعدد ازدواج کی اجازت بھی تھی، لیکن اس کی کوئی حد مقرر نہیں تھی۔ ایک مرد جتنی چاہتا شادیاں کر سکتا تھا۔ سید امیر علی لکھتے ہیں:
”نبی موسٰی کے وقت سے پہلے بنی اسرائیل کے یہاں تعدد ازدواج کا دستور تھا۔ نبی موسٰی نے اسے قائم رہنے دیا یہاں تک کہ انہوں نے اس کی کوئی حد مقرر نہ کی کہ ایک یہودی مرد بیک وقت کئی عورتوں کو اپنے نکاح میں رکھ سکتا تھا۔“[11]
یہودیت میں منگنی (אירוסין ”ایروسین“) کا تصور بھی پایا جاتا ہے اسی لیے یہودیت میں بھی شادی کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ایک منگنی اور دوسرا شادی۔ منگنی شادی کا اعلان ہوتی ہے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو سکے کہ ان کی شادی عنقریب ہونے والی ہے۔
یہودی دائرۃ المعارف میں ہے:
” | یہودی معاشرہ کے مطابق شروع سے ہی شادی کے دو مراحل ہیں: betrothal یعنی منگنی اور M. betrothal یعنی شادی۔ یہ وہ تقریب ہے جب ایک عورت اپنے منگیتر کی بیوی بنتی ہے اور پھر وہ عورت (اپنے شوہر کے مرنے یا طلاق کے بغیر) کسی اور سے شادی نہیں کر سکتی۔[12] | “ |
یہودیوں میں منگنی تین قسم یا تین طریقوں سے ہوتی ہے[12] یہ تینوں طریقے مشناہ میں مذکور ہیں:[13]
ان تین طریقوں میں سے آخری طریقہ کو تو قدیم یہودی علما نے ناجائز قرار دیا ہے اور دوسرا طریقہ یہودی معاشرہ میں بہت کم پایا جاتا ہے۔ یہودی معاشرہ میں پہلا طریقہ ہی زیادہ تر رائج ہے یعنی انگوٹھی یا رقم کے ذریعے کسی سے منگنی کرنا:
” | قدیم یہودی علما نے منگنی کے آخری طریقہ کو قبول نہیں کیا اور یہ یہودیوں میں رائج نہیں ہے۔ شادی کا دوسرا طریقہ بھی آج کل بہت کم ہے۔ پہلا طریقہ ہی آج کل اور ہمیشہ سے رائج ہے۔ شادی میں زیادہ کردار مرد ہی کا ہے لیکن عورت کی رضا مندی کے بغیر اس شادی کی کوئی وقعت نہیں ہے۔[14] | “ |
شادی کی کم از کم عمر کیا ہونی چاہیے اس بارے میں کوئی واضح ثبوت یہودیت میں نہیں ملتا، البتہ تلمود کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ شادی کے لیے کم از کم عمر 12 سال ہونی چاہیے۔ مولانا ظفیر الدین یہودیت کے قانون ازدواج کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
لڑکی کی عمر کا تو پتا چل گیا کہ کم از کم بارہ سال کی لڑکی کا نکاح کیا جا سکتا ہے جبکہ مرد کی عمر کے بارے میں یہ ہے کہ اس کی شادی کی نارمل عمر 18 سال ہے:
عدالت ہر مرد کو جس کی عمر 20 سال سے زیادہ ہو جائے شادی کرنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ ”تلمود کے احکامات“ میں مرد کی شادی کی نارمل عمر 18 سال اور عورتوں کی 13 سال مقرر کی گئی ہے لیکن یہودیوں کے ہاں عملاً شادیاں اس سے کم عمر میں بھی ہوتی رہی ہیں۔ تیرہویں صدی میں یہودی لڑکیوں کی شادیاں بلوغت سے پہلے کر دی جاتی تھیں اور سترہویں صدی کے دوسرے نصف حصے میں دُلہا دس سال کی عمر کو بھی نہیں پہنچتا تھا کہ اس کی شادی ہو جاتی تھی اور دُلہن کی عمر اس سے بھی کم ہوتی تھی۔[16]
رشید احمد نے اپنی کتاب ”تاریخِ مذاہب“ میں یہودیوں کی شادی کا اجمالی خاکہ پیش کیا ہے:
” | یہودیوں میں شادی کا طریقہ بہت سادہ اور دلچسپ ہے۔ منگنی کا اعلان شادی سے پہلے کر دیا جاتا ہے۔ شادی کے دن روزہ رکھنے کو مستحسن سمجھا جاتا ہے۔ شادی کی رسم سہ پہر کو مجلس میں ادا کی جاتی ہے، جس میں کم از کم دس بالغوں کی موجودگی ضروری سمجھی جاتی ہے۔ مجلس کی عمارت میں ایک ریشمی کپڑے کا شامیانہ تیار کیا جاتا ہے۔ جس میں دلہا دلہن کے ہمراہ آتا ہے۔ ربی ایک گلاس میں شراب لیتا ہے اور زوجین کے حق میں دعا کرتا ہے۔ پھر اس گلاس کو دلہا دلہن کو دے دیتا ہے۔ یہ لوگ شراب چکھتے ہیں۔ پھر دل دلہا دلہن کی انگلی میں انگوھی پہناتے ہوئے عبرانی زبان میں کہتا ہے: ”دیکھو تم اس انگلی کے ذریعے سیدنا موسٰی اور اسرائیل کی رسوم کے مطابق میرے ساتھ منسوب ہو چکی ہو۔“ پھر شادی کے عہد نامے کو آرامی زبان میں ربی با آواز بلند پڑھتا ہے۔ اس کے بعد شراب کا ایک گلاس لیتا ہے اور دعا کر کے پھر زوجین کو دیتا ہے جسے وہ دونوں چکھ لیتے ہیں۔ خالی گلاس فرش پر رکھ دیا جاتا ہے جسے نوشہ (دلہا) توڑ دیتا ہے اور حاضرین مزل توب (מזל טוב) یعنی خوش قسمت چِلاتے ہیں۔[17] | “ |
یہودیت کے ازدواجی نظام کے متعلق بہت کم معلومات ملتی ہیں اس لیے ان کے ازدواجی نظام کو تفصیلاً ذکر کرنا ممکن نہیں ہے۔ ذیل میں شادی کے دن کی ترتیب کو بیان کیا گیا اور ان رسومات کا جائزہ لیا گیا ہے جن کو یہودی اپنی شادیوں میں ادا کرتے ہیں۔ ان رسومات میں سے بعض مذہبی رسومات ہیں اور بعض معاشرتی۔
یہودی شریعت میں شادی کے دن روزہ رکھنا بہت اچھا اور مستحسن خیال کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد یہ بیان کیا گیا ہے کہ لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ شادی صرف خوشی منانے کا ذریعہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک مذہبی فریضہ بھی ہے۔ اس مذہبی فریضہ کو یاد دلانے کے لیے شادی کے دن روزہ رکھنے کو مستحسن قرار دیا گیا ہے
دلہا اور دلہن دونوں شادی کی تقریب کے اختتام تک روزہ کی حالت میں ہوتے ہیں (یعنی کچھ نہیں کھاتے)۔ (اس کا مقصد یہ بتانا ہے کہ) شادی خوشی کے ساتھ ایک سنجیدہ اور مذہبی کام بھی ہے اور یہ روزہ اس مذہب نوعیت کو یاد دلاتا ہے۔
یہودی دائرۃ المعارف میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ شادی کے دن روزہ رکھا جاتا تھا اور جب شادی کی رسم مکمل ہو جاتی تو وہ دونوں ایک الگ کمرہ میں جا کر اکھٹے روزہ افطار کرتے ہیں یعنی مل کر بھی کھاتے ہیں۔
” | دلہا اور دلہن شادی کی تقریب کے اختتام تک روزہ کی حالت میں ہوتے ہیں اور تقریب کے فوراً بعد ایک الگ کمرہ میں جا کر اکٹھے کچھ کھاتے ہیں۔[18] | “ |
رشید احمد نے بھی اپنی کتاب[17] میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ یہودیت میں شادی کے دن روزہ رکھنا مستحسن سمجھا جاتا ہے۔
ان اقتباسات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ شادی کے دن روزہ رکھنا یہودی شریعت میں کافی اہمیت رکھتا ہے اور اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ روزہ سے لوگوں کو یہ احساس دلانا مقصود ہے کہ شادی صرف خوشی منانے کی رسم نہیں ہے بلکہ یہ ایک مذہبی رسم بھی ہے اور روزہ شادی کے مذہبی رسم ہونے کی ایک علامت ہے۔
یہودی شادی کا ایک لازمی جز ”شامیانہ“ ہے جس میں شادی کی تمام تقریب وقوع پزیر ہوتی ہے۔ یہودی اصطلاح میں اسے خوپا (חופה ”خوپہ“) کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ یہ چار ستونوں سے بنا ایک خیمہ ہوتا ہے جس کے نیچے شادی کی تقریب کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جاتا ہے۔ یہ شامیانہ اس گھر کی علامت ہوتا ہے جس میں ان دونوں نے شادی کے بعد مل کر رہنا ہے اور جہاں ان کی اپنی مرضی چلے گی۔
اس شامیانہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بعض دفعہ شادی کی تقریب کو اس شامیانہ سے موسوم کیا جا تا ہے۔
” | دلہا اور دلہن ایک خوپا یعنی ایک خیمہ کے نیچے کھڑے ہوتے ہے جس کے چار ستون ہوتے ہیں۔ یہ خیمہ ان کی اکھٹے رہنے والی زندگی اور شوہر کے دلہن کو اپنے گھر لانے کی علامت ہے۔ اس خیمہ کی اتنی اہمیت ہے کہ بعض اوقات شادی کی تقریب کو اس خیمہ سے ہی منسوب کر دیا جاتا ہے۔[19] | “ |
شامیانہ (خوپا) میں جانے سے قبل دُلہا باراتیوں کے ساتھ مل کر خوشی کے گیت گاتا ہے اور دلہن جب اس شامیانہ میں داخل ہوتی ہے تو اس کا چہرہ نقاب (گونگھٹ) سے ڈھانپا ہوا ہوتا ہے۔ اس شامیانہ کا مقصد بعض لوگوں نے یہ بیان کیا ہے کہ اس سے دلہا اور دلہن پر سایہ کیا جاتا ہے اور بعض لوگوں کے مطابق اس کا مقصد یہ ہے کہ گواہ اچھی طرح زوجین کو دیکھ لیں۔ اس تقریب (رسم) کو ”بدکن یا بادعقن (באַדעקן)“ کہا جاتا ہے اور یہ رسم چھ سو سال پرانی ہے۔ اس رسم کی بنیاد یا حقیقت اس تنازع پر ہے کہ خوپا اصل میں کیا چیز ہے۔ اس بارے میں کئی رائے ہیں: خوپا کا مطلب ہے وہ ان کے منہ کو چھپانا یا پھر اس غلاف کا مطلب ان کی شادی ہے۔ یہ رائے ایک آیت کی بنیاد پر ہے ”تب اس نے نقاب سے اپنے آپ کو چھپا لیا“ (پیدائش 24، 65) جب ربقہ اسحاق سے ملنے گئی۔ بعض لوگ اس معاملے میں شدت کے قائل ہیں، وہ کہتے ہیں کہ گواہوں کو اس پردہ کو ضرور دیکھنا چاہیے تب جا کر وہ شادی کے گواہ تسلیم ہوں گے۔[20] یہ رسم صرف اشکنازی یہود کرتے ہیں سفاردی یہود نہیں کرتے۔
یہودی شادی کے لیے ایک اور لازمی امر یہ ہے کہ اس تقریب میں کم از کم دس لوگ ضرور موجود ہوں جن کے موجودگی میں نکاح کی یہ تقریب مکمل کی جا سکے۔ یہ دس لوگ اس شادی کے گواہ ہوں گے کہ اگر کوئی عدالتی مسئلہ پیش آ جائے تو ان گواہوں سے شہادت لی جائے گی۔ ان میں ایک ربی بھی ہونا چاہیے جو تورات کی کچھ آیات اور دعاؤں کو تلاوت کرے گا اور اس نئے جوڑے کو خدا کی رحمت کی دعا دے گا۔ یہودی دائرۃ المعارف میں ہے:
” |
(شادی کے موقع پر) دس افراد کی موجودگی لازمی ہے جن میں سے ایک ربی ہو جو تورات میں سے دعائیں پڑھے۔[18] |
“ |
یہودی شادی کی ایک اہم رسم ”انگوٹھی پہنانے“ کی ہے۔ یہ انگوٹھی دلہا دلہن کی رضا مندی کی علامت سمجھی جاتی ہے اور اس انگوٹھی کے بارے میں قاعدہ ہے کہ یہ سونے کی ہو اور اس میں کو ئی نگینہ یا پتھر جڑا ہوا نہ ہو۔ دلہا دلہن کو انگوٹھی پہنا کر یہ کہتا ہے: ”موسٰی اور اسرائیل کے قانون کے مطابق اس انگوٹھی کے ذریعے تم میرے لیے پاک کر دی گئی ہو“[21]
دلہا یہ انگوٹھی دلہن کی انگلی میں ڈالتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے موسٰی اور اسرائیل کے قانون کے مطابق اس انگوٹھی کے ذریعے تمھیں اپنایا۔ تو دلہن اس انگوٹھی کو قبول کر لیتی ہے اور اس طرح اس کی رضا مندی معلوم ہو جاتی ہے۔[22]
”دلہا دلہن کو انگوٹھی پہناتا ہوئے اقرار کرتا ہے کہ موسٰی اور اسرائیل کے مذہب کے مطابق اس انگوٹھی کے ذریعے تم میرے لیے پاک کر دی گئی ہو۔“ معاشرتی روایات کے طور پر ان کے اس پر کئی رد عمل ہو سکتے ہیں۔ اگر وہ اس انگوٹھی کو اپنی انگلی میں پہنے اور اپنے ہاتھوں کو بند کر لے تو یہ اس کی رضامندی کی علامت ہے۔[23]
یہودی دائرۃ المعارف میں بھی اس رسم کا تذکرہ کیا گیا ہے:
” | دلہا سونے کی انگوٹھی بغیر کسی نگینہ یا پتھر کے، دلہن کی انگلی میں یہ کہتے ہوئے پہناتا ہے: ”میں نے موسٰی اور اسرائیل کے مذہب کے مطابق اس انگوٹھی کے ذریعے تمہیں اپنی بیوی بنایا ہے (یعنی تم میرے اندر سما گئی ہو)۔“[18] | “ |
یہودیت میں شادی کی رضا مندی اس انگوٹھی کی رسم سے ہی معلوم کی جاتی ہے۔ اگر دلہن انگوٹھی پہن لے اور پہننے کے بعد اپنے ہاتھوں کو جوڑ لے تو اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ لڑکی اس شادی پر راضی ہے۔[24]
یہودی شادی میں نکاح نامہ بھی بہت اہمیت کا حامل ہے اس کے بغیر شادی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس نکاح نامہ کو یہودی اصطلاح میں ”کتوبا“ (כתובה ”کتوبہ“) کہا جاتا ہے۔ یہ تین الفاظ (کف-تاو-بیت) سے مل کر بنا ہے جس کا معنی ہے”لکھا ہوا۔“
” | شادی کا ایک جزو یہ بھی ہے کہ شوہر اپنی ہونے والی بیوی کو کتوبا (نکاح نامہ) دیتا ہے۔کتوبا اصل میں کف-تاو-بیت سے بنا ہے جس کے معنی ”لکھے ہوئے“ کے ہیں۔ اس کتوبا کو شادی کا معاہدہ بھی کہا جاتا ہے۔[18][25] | “ |
اس نکاح نامہ میں دُلہا یہ عہد کرتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کو مہر دے گا جو طلاق یا اس کے مرنے کی صورت میں اس کے کام آئے گا اور وہ یہ بھی عہد کرتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کو نان نفقہ دے گا اور اس کی جسمانی خواہشات کو بھی پورا کرے گا۔
” | یہ نکاح نامہ بیوی کے حقوق کا آئینہ دار ہے (یعنی شوہر کی طرف سے طلاق یا شوہر کی وفات کی صورت میں بیوی کو ضروری پیسے ملیں گے) اور شوہر کی ذمہ داری کو بیان کرتا ہے (کہ وہ بیوی کو روٹی، مکان، کپڑا اور جسمانی اطمینان دے گا)۔ اس کی اس غیر ضروری اہمیت کی بنا پر اسے ہبر و زبان کے بجائے آرامی زبان میں تحریر کیا گیا تھا جس وقت پہلا نکاح نامہ بطور معیار بنایا گیا۔ اس لیے کہ اس وقت یہودیوں کی مادری زبان آرامی ہی ہوا کرتی تھی۔[26] | “ |
یہ نکاح نامہ حاضرین کے سامنے اونچی آواز سے پڑھا جاتا ہے۔ تاکہ تمام لوگ اس نکاح نامہ کی عبارت کو سن سکیں اور اس پر گواہ بن سکیں:
” | ربی پھر اس کتوبا (نکاح نامہ) کو مختصر طور پر (لوگوں کے سامنے) پڑھے۔[18] | “ |
یہودی اسے بہت قیمتی اور مبارک خیال کرتے ہیں اس لیے اسے بہت خوبصورت انداز میں فریم کرا کر گھر میں لگایا جا تا ہے۔
” | نکاح نامہ پر خوبصورت سی خطاطی کرانے کے بعد اسے فریم میں بند کر کے گھر میں لٹکا دیا جاتا ہے۔[25][27] | “ |
یہودی شادی کی ایک رسم یہ بھی ہے کہ شادی کے موقع پر ربی شراب کا ایک گلاس لیتا ہے اور اس پر چند دعائیں پڑھتا ہے (بعض جگہ دو دعاؤں کا ذکر ہے) اور اس کے بعد ربی شراب کا گلاس زوجین کو دیتا ہے اور وہ باری باری اس میں سے شراب پیتے ہیں:
” | ربی شراب کے گلاس پر دو دعائیں پڑھے۔ پھر دلہا اور دلہن اس کپ میں سے شراب پئیں۔[28] | “ |
یہودی دائرۃ المعارف میں بھی زوجین کے شراب پینے کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ربی پہلے اس پر رحمت کی دعائیں پڑھے گا اور پھر وہ شراب و لہا دلہن کو پینے کے لیے دے گا:
یہودی شادی کی ایک انوکھی رسم گلاس توڑنے (חופה וקידושין) کی ہے جس میں دلہا دلہن شراب پینے کے بعد گلاس کو زمین پر رکھتے ہیں اور دلہا گلاس کو اپنے دائیں پاؤں سے توڑتا ہے اور سب لوگ ”مزل توب“ یعنی خوش قسمت پکارتے ہیں۔
اس گلاس توڑنے کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ یہودی تاریخ میں ان پر جو ظلم و زیادتیاں ہوئی ہیں اس کی یاد میں ہی گلاس توڑا جاتا ہے تاکہ شادی کے اس مسرت موقع پر بھی اس ظلم و زیادتی کو یاد رکھا جائے۔
” | ربی نئے جوڑے کو دعائیں دے اور پھر دلہا اپنے پاؤں سے گلاس کو توڑے۔ یہ دراصل ان مظالم کی یاد کے طور پر ہے جو یہودیوں پر ماضی میں ہوئے تھے۔ شادی کی تقریب اگرچہ خوشی کا دن ہے لیکن ماضی میں یہودیوں پر کیے گئے مظالم کی وجہ سے اس دن دکھ (کے احساسات) بھی موجود ہیں۔[28] | “ |
یہودی دائرۃ المعارف میں بھی گلاس توڑنے کی اس رسم کو بیان کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ یہ گلاس توڑنا یہودیوں پر کیے گئے مظالم کے بعد اب ایک نئی صبح کی علامت ہے:
” | شراب کے گلاس پر چند دعائیں پڑھنے اور پھر دلہا اور دلہن کے اس شراب کو پینے کے ساتھ یہ بھی معاشرتی روایت ہے کہ دلہا ایک گلاس کو (اپنے پاؤں کی ٹھوکر سے) توڑے۔ یہ یہودیوں پر مظالم کے دور کے بعد ایک نئی صبح کی علامت ہے۔[18] | “ |
بعض یہودیوں کے نزدیک اس گلاس توڑنے کا مقصد یہ ہے کہ گلاس کے ٹکڑے یہ بتاتے ہیں کہ یہ دلہا دلہن کب تک شادی کے بندھن میں رہیں گے یعنی ان کی شادی کب تک قائم رہے گی:
” | ان تصورات کے ساتھ ساتھ کچھ یہودیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اس ٹوٹنے والے
گلاس کے ٹکڑے یہ بتاتے ہیں کہ یہ دلہا اور دلہن کب تک شادی کے بندھن میں بندھے رہیں گے۔[29] |
“ |
یہودیوں نے اس کی اور بھی وجوہات بیان کی ہیں مگر زیادہ ہے یہی وجہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ ٹوٹا گلاس اس دور کی علامت ہے جب یہودیوں پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے گئے تھے:
” | پھر دلہا گلاس (یا گلاس کے کسی چھوٹے ٹکڑے) کو اپنے دائیں پاؤں سے توڑتا ہے۔ یہ اس دور کی علامت ہے جب یہودیوں کے ہیکل کو تباہ و برباد کیا گیا۔[27] | “ |
رشید احمد نے بھی اپنی کتاب می ”گلاس توڑنے کی رسم“ کو بیان کیا ہے
یہودیوں کی ایک رسم یہ بھی ہے کہ شادی کی تقریب میں زوجین سات دعائیں پڑھتے ہے اور بعض یہودیوں میں یہ بھی رواج ہے کہ دلہن ان دعاؤں کے ساتھ ساتھ دلہا کے گرد چکر بھی لگائی ہے۔ یہودی دائرۃ المعارف میں ہے:
” | آخر میں ”سات خیر کی دعائیں“ پڑھی جاتی ہیں۔ بعض لوگوں میں یہ رواج ہے کہ شادی کی تقریب شروع ہونے سے پہلے دلہن، دلہا کے گرد سات چکر لگاتی ہے۔[18] | “ |
ان دعاؤں کو پڑھتے وقت دس گواہوں کی موجودگی لازمی ہے۔ دلہا اور دلہن منیان (جو دس یہودی بالغ مردوں کا گروہ ہوتا ہے) کے سامنے سات دعائیں پڑھتے ہیں۔ اس سات دعاؤں کا نچوڑ ہے اس رب کی تعریف کرنا:[30]
باقی الہامی مذاہب کی طرح یہودیت میں بھی عورت کے مہر کا تصور ملتا ہے لیکن یہودی قانون میں مہر کو عورت کا معاشی حق نہیں سمجھا جاتا اس لیے اسے اتنی اہمیت بھی نہیں دی جاتی۔ اسی وجہ سے یہودی قانون میں اس کا تذکرہ اشارتاً تو ملتا ہے مگر صراحتاً اس کا ذکر نہیں ملتا۔ محمد عبد الرحمٰن یہودی مذہب میں مہر کے تصور کے بارے میں لکھتے ہیں:
”یہودی مذہب میں عورت کا مہر ہوتا ہے اور وہ اس کی مالک بنتی ہے، لیکن یہ اس کا قانونی یا معاشی حق نہیں ہے کہ اس کو بہت زیادہ اہمیت دی جائے۔‘‘[31]
بائبل میں بھی اس مہر کا ذکر اشارتاً موجود ہے:
اگر کوئی مرد کسی کنواری کو جس کی نسبت نہ ہوئی ہو پھسلا کر اس سے مباشرت کرے تو وہ ضرور ہی اسے مہر دے کر اس سے بیاہ کرے، لیکن اگر اس کا باپ ہرگز راضی نہ ہو کہ اس لڑکی کو اسے دے تو وہ کنواریوں کے مہر کے موافق اسے نقدی دے۔“[32]
بائبل میں دوسری جگہ اس مہر کی مقدار کا بھی اشارہ ملتا ہے کہ وہ ”چاندی کے پچاس مثقال“ ہے:
”اگر کسی آدمی کو کوئی کنواری لڑکی مل جائے جس کی نسبت نہ ہوئی ہو اور وہ اسے پکڑ کر اس سے صحبت کرے اور دونوں پکڑے جائیں تو وہ مرد جس نے اس سے صحبت کی ہو، لڑکی کے باپ کو چاندی کے پچاس مثقال دے اور وہ لڑکی اس کی بیوی نے کیونکہ اس نے اسے بے حرمت کیا اور وہ اسے اپنی زندگی جبر طلاق نہ دینے پائے۔“[33]
محرمات کا تصور تو ہر مذہب میں موجود ہے۔ یہودیت چونکہ ایک آسائی مذہب ہے اس لیے اس میں ان عورتوں کا تفصیلاً ذکر ہے جن سے نکاح کرنا ایک یہودی کے لیے ممنوع ہے۔ بائبل میں ہے:
ذیل میں ان رشتوں کو ترتیب سے بیان کیا گیا ہے جن سے نکاح کرنا یہودی شریعت میں ممنوع ہے
ماں سے نکاح کرنا کسی مذہب میں جائز نہیں ہے چاہے وہ سگی ماں ہو جس نے اسے جنا ہے یا وہ اس کے باپ کی بیوی یعنی سوتیلی ماں ہو:
یہ تو سگی ماں کی بات تھی۔ سگی ماں کی طرح سوتیلی ماں سے نکاح کرنا بھی تقریباً ہر مذہب میں حرام ہے۔ بائبل میں ہے:
دوسری جگہ اس موضوع کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:
ماں کی طرح بہن سے نکاح کرنا بھی یہودی شریعت میں حرام ہے:
بائبل میں اس موضوع کو اور جگہ بھی بیان کیا گیا ہے:
یہودی شریعت میں پوتی اور نواسی سے بھی بیاہ نہیں کیا جا سکتا:
یعنی بیوی کی ماں سے بھی شادی کرنا حرام ہے: ”لعنت اس پر جو اپنی ساس سے مباشرت کرے اور سب لوگ کہیں آمین۔“[41]
پھوپھی لیکن باپ کی بہن سے بیاہ کرنا بھی یہودی شریعت میں حرام ہے:
پھوپھی کی طرح خالہ یعنی ماں کی بہن سے بیاہ کرنا بھی یہودی شریعت میں حرام ہے:
پھوپھی اور خالہ کی طرح چچی/تائی یعنی باپ کے بھائی کی بیوی سے بیاہ کرنا بھی یہودی شریعت میں حرام ہے:
یہودی قانون ازدواج کے مطابق بیٹے کی بیوی سے بھی بیاہ کرنا حرام ہے:
ایک بھائی دوسرے بھائی کی بیوی سے بیاہ نہیں کر سکتا:
ایک شخص کا دو بہنوں سے ایک ہی وقت میں نکاح کرنا اسلام کی طرح یہودیت میں بھی حرام قرار دیا گیا ہے:
اسی طرح ماں بیٹی یا ماں اور نواسی کو نکاح میں جمع کرنا بھی ممنوع ہے۔ یہودی شریعت نے اسے خباثت قرار دیا ہے:
یہ تو ان محرمات کا ذکر ہے کہ جن کی حرمت واضح الفاظ میں یہودی شریعت میں بیان کر دی گئی ہے جبکہ غیر یہودی عورت سے نکاح کرنے کی حرمت کا بھی ذکر اشارتاً موجود ہے۔ لڑکے اور لڑکی کا پیدائشی طور پر یہودی ہونا لازم ہے اگر ان میں سے ایک غیر یہودی ہے تو پھر ان کا نکاح نہیں ہو سکتا۔
” | بعض صورتوں میں شادی تسلیم شدہ نہیں ہے مثلاً ماں، بہن، بیٹی، غیر یہودی یا کسی دوسرے آدمی کی بیوی کے ساتھ۔[12] | “ |
یہودیت میں زیادہ تر شادیاں یہودیوں (یہودی مرد اور یہودی عورت) کے درمیان میں ہی ہوتی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ غیر یہودی عورت سے پیدا ہونے والا بچہ یہودی نہیں ہوتا اگرچہ اس کا باپ یہودی ہو۔[49]
معاشرتی نشو و نما کے سلسلے میں تعدد ازدواج میں ایک مرد کا بیک وقت ایک سے زیادہ عورتوں کا شوہر ہونا ایک ناگزیر امر ہوتا ہے۔ قدیم زمانوں میں آئے دن جنگوں کے باعث مردوں کی آبادی میں کی ہو جایا کرتی تھی جس سے عورتوں کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا تھا اس لیے تعدد ازدواج کا قانون رائج کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ اس کی ایک وجہ بھی بیان کی جا سکتی ہے کہ سرداروں اور بادشاہوں کو مکمل اختیار حاصل تھے جس کی وجہ سے وہ جتنی چاہتے شادیاں کر لیتے تھے۔
یہودیت میں بھی تعدد ازدواج کی اجازت اگرچہ صراحتاً تو نہیں ملتی مگر مختلف واقعات کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس معاشرہ میں بھی تعدد ازدواج کی اجازت تھی۔ یہودیت کے تعدد ازدواج کے قانون کی ایک بڑی خرابی یہ تھی کہ اس کی کوئی حد بندی نہیں تھی:
”موسٰی کے وقت سے پہلے بنی اسرائیل کے ہاں تعدد ازدواج کا دستور تھا۔ موسٰی نے اسے قائم رہنے دیا یہاں تک کہ انہوں نے اس کی کوئی حد مقرر نہ کی کہ ایک یہودی مرد بیک وقت کتنی عورتوں کو اپنے نکاح میں رکھ سکتا تھا۔“[50]
ایک یہودی اپنی خوشی اور خواہشات کی تکمیل کے لیے لا تعداد عورتوں سے شادی کر سکتا ہے۔ اس سلسلے میں داؤد اور سلیمان کی مثالیں دی جا سکتی ہیں جن کی بے شمار بیویاں تھیں۔ بائبل میں سلیمان کی بیویوں کی تعداد کا تذکرہ موجود ہے:
”سلیمان ان ہی کے عشق کا دم بھرنے لگے اور ان کے پاس سات سو شاہزادیاں ان کی بیویاں اور تین سو حرمیں تھیں۔“[51]
مندرجہ بالا بیانات سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ یہودیت میں تعدد ازدواج کی اجازت ہے اور اس کی کوئی حد بندی بھی نہیں ہے مگر بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک یہودی شخص اتنی بیویاں رکھ سکتا ہے جن کو نان و نفقہ دینے کی اس میں استطاعت ہو۔
یہودی شریعت میں جب ایک عورت کی شادی ہو گئی تو پھر وہ دوبارہ شادی نہیں کر سکتی۔ اگر کسی یہودی عورت کو اس کے شوہر نے طلاق دے دی تو اب وہ دوبارہ شادی نہیں کر سکتی اور نہ ہی کسی مرد کو اس سے شادی کرنے کی اجازت ہے۔ بائبل میں ہے:
”وہ کسی فاحشہ یا ناپاک عورت سے بیاہ نہ کریں اور نہ اس عورت سے بیاہ کریں جسے اس کے شوہر نے طلاق دی ہو۔“[52]
اسی طرح کئی اور مقامات پر یہودی مرد کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ کسی مطلقہ عورت سے بیاہ نہ کرے بلکہ کسی کنواری لڑکی سے بیاہ کرے:
”اور وہ کنواری لڑکی سے بیاہ کریں۔ جو بیوہ یا مطلقہ یا نا پاک عورت یا فاحشہ ہو ان سے وہ بیاہ نہ کرے بلکہ اپنی ہی قوم کی کنواری کو بیاہ لے۔‘‘[53]
سید جلال الدین بھی اپنی کتاب میں یہی لکھتے ہیں کہ یہودی قوانین میں عورت کو دوسری شادی کرنے کی کوئی اجازت نہیں تھی:
”یہودی قانون کی رو سے مرد وارث کی موجودگی میں عورت وارث سے محروم ہو جاتی ہے۔ اس طرح عورت کو دوسری شادی کا بھی حق نہیں تھا۔“[54]
حافظ ضیاء الدین نے یہودی قانون میں عورت کی دوسری شادی کی پابندی کو عورتوں پر بہت بڑا ظلم قرار دیا ہے:
”اسی طرح اگر ایک مرتبہ عورت کی شادی مرد سے ہو گئی تو یہودی شریعت میں اس عورت کو دوسری شادی کی کسی صورت اجازت تھی۔ اس سے واضح ہوا کہ عورت پر ظلم و ستم کی یہودیوں نے انتہا کر دی تھی۔“[55]
یہ تو اس عورت کے نکاح کا بیان تھا جس کو اس کا شوہر طلاق دے دے اور اگر کسی عورت کا شوہر مر جائے تو اس کے لیے یہودی قانون میں ہی حکم و رواج تھا کہ وہ اپنے شوہر کے بھائی سے شادی کرے اور اس شادی سے ہونے والا پہلا بچہ بھی اس کا نہیں بلکہ اس کے مرحوم بھائی کا شمار ہوتا تھا۔ اگر اس کے شوہر کا بھائی شادی کرنے سے انکار کر دیتا تو پھر اسے اس بات پر مجبور کیا جاتا اور اگر وہ پھر بھی نہ مانتا تو اس کو عمر بھر ذلت کا سامنا کرنا پڑتا۔ بائبل میں ہے:
”اگر کئی بھائی مل کر ساتھ رہتے ہوں اور ایک ان میں سے بے اولاد مر جائے تو اس مرحوم کی بیوی کسی اجنبی سے بیاہ نہ کرے، بلکہ اس کے شوہر کا بھائی اس کے پاس جا کر اسے اپنی بیوی بنانے اور شوہر کے بھائی کا جو حق ہے وہ اس کے ساتھ ادا کرے۔ اور اس عورت کے جو پہلا بچہ ہو وہ اس آدمی کے مرحوم بھائی کے نام کا کہلائے تا کہ اس کا نام اسرائیل میں سے مٹ نہ جائے۔ اور اگر وہ آدمی اپنی بھاوج سے بیاہ نہ کرنا چاہے تو اس کی بھاوج پھاٹک پر بزرگوں کے پاس جائے اور کہے میرا دیور اسرائیل میں اپنے بھائی کا نام بحال رکھنے سے انکار کرتا ہے اور میرے ساتھ دیور کا حق ادا کرنا نہیں چاہتا۔ تب اس کے شہر کے بزرگ اس آدمی کو بلوا کر سمجھائیں اور اگر وہ اپنی بات پر قائم رہے اور کہے کہ مجھ کو اس سے بیاہ کر نا منظور نہیں ہے تو اس کی بھاوج بزرگوں کے سامنے اس کے پاس جا کر اس کے پاؤں سے جوتی اتارے اور اس کے منہ پرتھوک دے اور یہ کہے کہ جو آدمی اپنے بھائی کا گھر آباد نہ کرے اس سے ایسا ہی کیا جائے گا۔ تب اسرائیلیوں میں اس کا نام پڑ جائے گا کہ یہ اس شخص کا گھر ہے جس کی جوتی اتاری گئی تھی۔“[56]
جب یہودی عورت کا شوہر مر جاتا تو اب اسے اپنے شوہر کے بھائی سے لازمی شادی کرنی پڑتی تھی اور اس شادی میں ایک طرف تو لڑکے کو مجبور کیا جاتا تھا تو دوسری طرف عورت سے بھی اس کی رضا نہیں پوچھی جاتی تھی۔ اور اس شادی سے ہونے والی پہلی اولاد بھی اس پہلے خاوند ہی کی شکار ہوتی تھی بقول شبلی نعمانی:
”یہودی مذہب میں بیوہ عورت ایک بھائی کے مرنے کے بعد اس کے دوسرے بھائی کی ملک ہو جاتی تھی اور وہ جس طرح چاہتا اس سے معاملہ کر سکتا تھا۔ اس زن و شوئی تعلق میں عورت کی مرضی کا کوئی اختیار نہ تھا، بلکہ اس کی حیثیت مجبور کی سی ہوتی تھی۔“[57]
عگونہ ایک عبرانی اصطلاح جو اس عورت کے لیے بولی جاتی ہے جو شادی نہیں کر سکتی کیونکہ وہ یہودی شریعت کی رو سے اب تک ایک ایسے شخص کے ساتھ شادی کے بندھن میں بندھی ہوتی ہے جس کے ساتھ وہ نہیں رہتی۔[58]
زیادہ تر ”گت“ (یہودی طلاق) کا طریقہ اپنایا جاتا ہے، جس کے ذریعے مردوں اور عورتوں کو نا پسند شادی کے رشتے سے نجات ملتی ہے۔ کوئی بھی ربی کسی شوہر یا بیوی کی دوبارہ شادی اس وقت تک نہیں کر سکتا جب تک کہ پچھلی شادی گت کے ذریعے ختم نہ ہو چکی ہو۔[58]
ازدواجی مطابقت یا اتحاد کو عبرانی زبان میں ”شلوم بیت“ (שְׁלוֹם בַּיִת ”گھر کا امن“) کہتے ہیں، یہ یہودیت میں کافی معنی رکھتا ہے۔ تلمود کا بیان ہے کہ ایک مرد کو اپنی سے اتنی ہی محبت کرنی چاہیے جتنی وہ خود سے کرتا ہے؛[59] قدیم دور کے ربیوں کا کہنا تھا کہ جو شخص اپنی بیوی کو عزت دے گا وہ یقیناً مالا مال کیا جائے گا۔[60] اسی طرح ایک شوہر جو ہر قسم کے دنیاوی معاملات میں اپنی بیوی سے بات کرتا ہے، وہ اپنی زندگی میں سرفراز ہو گا۔[60] تلمود میں خاوند کو گھر میں اپنے زور و غلبہ دکھانے[61] سے منع کیا گیا ہے اور شوہر کی طرف سے گھریلو تشدد کی بھی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔[62] بیوی کے متعلق کہا گیا ہے ”خدا اس [بیوی] کے آنسو گنتا ہے“۔[62]
تلمودی ربیوں نے کسی بھی خاتون جو مسقبل بیوی بننے والی ہو، کے لیے سب سے اچھی تجویز یہ پیش کی ہے کہ وہ اپنے شوہر کی تمام خواہشات کو پورا کرے؛[63] ابتدائی مدراش کا بیان ہے کہ کسی بیوی کو گھر ”بار بار“ نہیں چھوڑنا چاہیے۔[64] بیوی کو چاہیے کہ شرم و حیا کرے، چاہے اس کے ساتھ موجود اکیلا مرد اس کا شوہر ہی کیوں نہ ہو۔[65] تلمود میں یہ بھی مذکور ہے کہ پاک صاف اور پیار والے گھر میں خدا بھی موجود ہوتا ہے۔[66]
یہودیت میں ازدواجی حقوق و فرائض بائبل میں مذکور احکامات پر مبنی ہیں۔
روایتی طور پر، شوہر کے فرائض میں بیوی کو سہارے کے وسائل فراہم کرنا شامل ہیں۔ اس کا فرض ہے کہ وہ اپنی بیوی کو نان و نفقہ فراہم کرے؛ بدلے میں وہ اپنی بیوی کی آمدنی کا بھی مستحق ہے۔ یہ بیوی کا حق ہے اور اگر وہ چاہے تو اپنے شوہر کو نان و نفقہ سے آزاد کر سکتی ہے اور اگر وہ چاہے تو اس کی آمدنی اپنے لیے مانگ سکتی ہے۔ اس کا اسے استثنا حاصل ہے۔ اس کے لیے جو دستاویز فراہم کی جاتی ہے اسے کتوبا (نکاح نامہ) کہتے ہیں۔
غیر روایتی نقطہ نظر کے مطابق، (بقول بائبل) بیوی شوہر کی ملکیت تھی اور وہ جیسے چاہے اس کے ساتھ سلوک کر سکتا تھا، [67] مگر بعد میں یہودیت نے شوہر پر کچھ فرائض عائد کیے، جس میں بیوی کے حقوق اور آزادیاں شامل تھیں؛[67] کسی بھی دوسرے کلچر کی بیوی ہونے سے ایک یہودی بیوی ہونا مفید ہوتا تھا۔[67] مثلاً تلمود نے ایک اصول قائم کیا ہے کہ بیوی مستحق ہوتی ہے مگر اسے اپنی اطاعت کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا، بیوی کا وہی رتبہ اور سماجی درجہ ہے جو اس کے شوہر کا ہے، [68][69] اور شادی سے پہلے ہی وہ اپنی سماجی حیثیت کی وجہ سے ہر قسم کے اضافی فائدوں کی وہ مستحق ہے۔[68][69]
یہودی روایت میں، شوہر کا فرض ہے کہ وہ اپنی بیوی کو ایک گھر عطا کرے، مقامی رسوم کے حساب اور اپنی حیثیت کے لحاظ سے اس گھر کو لوازمات ضروریہ سے آراستہ کرے؛[62] ازدواجی جوڑے کا فرض ہے کہ وہ اس گھر میں ایک ساتھ رہیں، اگر شوہر کسی مجبوری کی وجہ سے ایسا نہیں کر پاتا تو تلمود اس کو اس فرض سے مستثنیٰ کرتی ہے۔[70] روایتی طور پر، اگر شوہر اپنا مسکن تبدیل کر دے، تو بیوی کا فرض ہے کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ منتقل ہو جائے۔[62] قرون وسطی میں یہ تصور تھا کہ اگر کوئی اپنی شریک حیات کے ساتھ رہنے سے مسلسل انکار کرتا رہے تو جواباً شریک حیات کے پاس طلاق کی کافی وجوہات موجود ہوتی ہیں۔[71][72]
یہودی علما کا خیال ہے جس میز پر شوہر کھانا کھاتا ہے اسی پر اس کی بیوی کو بھی کھانے کی اجازت دینی چاہیے، چاہے اس نے بیوی کو اس کے لیے پیسے ہی کیوں نہ دیے ہوں۔[62] اس کے برعکس اگر شوہر اپنی بیوی کے ساتھ بد سلوکی کرے یا پھر کسی بدنام علاقے میں رہے، تو اس صورت میں یہودی علما بیوی کو کسی دوسرے گھر میں منتقل ہونے کی اجازت دیتے ہیں اور ساتھ ہی شوہر کا فرض ہے کہ وہ بیوی کی نئے گھر میں مالی امداد کرے۔[62]
بائبل کے مطابق خاندان کی افزائش کا کام بیوی کو کرنا چاہیے۔[67] ربیائی لٹریچر میں اس بات کا ذکر ملتا ہے کہ جب تک عورت شادی کے بعد شوہر کو بھاری جہیز نہ دیدے تو اس وقت تک وہ گھر کے تمام کام (کھانا، پکانا، دھونا، بچوں کی دیکھ بھال وغیرہ) کرے؛[62] بعد کی صورت حال میں بیوی سے فقط اتنی امید کی جاتی ہے کہ وہ شوہر کے مرضی کے مطابق کام کرے مثلاً بستر بنانا اور شوہر کو کھانا پیش کرنا۔[62] یہودی روایت میں شوہر کا فرض ہے کہ وہ لینن کا بستر اور باورچی خانہ کا سامان فراہم کرے۔[62] اگر کسی بیوی کے دو جڑواں بچے ہیں تو تلمود کے مطابق شوہر کا فرض ہے کہ وہ ان میں سے کسی ایک کی دیکھ بھال کرے۔[73]
تلمود میں شوہر کی اس کی بیوی کو کپڑے فراہم کرنے کی بائبل کی ہدایات کی وضاحت کی گئی ہے۔ تلمود میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ شوہر ہر سال لازمی ہر بیوی کو 50 زوزیم کی قیمت کے کپڑے دے، [74] اس میں سال کے ہر سیزن کے حساب سے پوشاکیں بھی شامل ہیں۔[62] تلمودی ربیوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ سال کے کپڑوں کے تحفہ میں ایک ٹوپی، کمر بند اور تین جوتوں کے جوڑے لازمی ہونے چاہئیں[75] (یعنی سال کے تین تہواروں، فسح، شبوعوت اور سوکوت کے لیے ایک ایک جوڑا[74])۔ قدیم دور کے ربیوں میں شوہر سے یہ توقع ہوتی تھی کہ وہ اپنی بیوی کو جواہرات اور خوشبوئیں دے، اس صورت میں جب وہ کسی ایسے علاقے میں رہتا ہوں جہاں کا یہ رواج ہو۔[62]
کھانے اور کپڑوں کے علاوہ ازدواجی تعلقات کو عورت کا بنیادی حق کہا جاتا ہے۔[76] اس فرض کو عبرانی زبان میں ”عوناہ“ کہا جاتا ہے۔[77] شادی میں جنسی رشتہ عورت کا حق ہے اور مرد کی ذمہ داری۔ اگر دونوں میں سے کوئی بھی ساتھی اس عمل میں حصہ لینے سے انکار کرے، تو اس شخص کو سرکش سمجھا جاتا ہے اور دوسرا شریک حیات طلاق کے لیے عدالت سے رجوع کر سکتا ہے۔