فائل:Shuja ud din butt edit.jpg | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
ذاتی معلومات | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
مکمل نام | شجاع الدین بٹ | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
پیدائش | 10 اپریل 1930 لاہور, صوبہ پنجاب, برطانوی راج | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
وفات | 7 فروری 2006 انگلستان | (عمر 75 سال)|||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بلے بازی | دائیں ہاتھ کا بلے باز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
گیند بازی | بائیں ہاتھ کا اسپن گیند باز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
حیثیت | بلے باز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بین الاقوامی کرکٹ | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
قومی ٹیم | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
پہلا ٹیسٹ (کیپ 17) | 10 جون 1954 بمقابلہ انگلینڈ | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
آخری ٹیسٹ | 2 فروری 1962 بمقابلہ انگلینڈ | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
ملکی کرکٹ | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
عرصہ | ٹیمیں | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
1947 | شمالی بھارت | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
1947 | پنجاب کرکٹ ٹیم (پاکستان) | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
1948–1952 | پنجاب یونیورسٹی | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
1953–1964 | کمبائنڈ سروسز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
1958–1970 | بہاولپور | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
1966 | راولپنڈی کرکٹ ٹیم | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
کیریئر اعداد و شمار | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
ماخذ: کرکٹ آرکائیو، 2 مارچ 2013 |
شجاع الدین بٹ انگریزی: Shujauddin Butt(پیدائش: 10 اپریل 1930ء لاہور، پنجاب) | (وفات: 16 اپریل 2006ء لندن، انگلینڈ) ایک پاکستانی کرکٹ کھلاڑی ہیں ۔[1]جنھوں نے پاکستان کی طرف سے 19 ٹیسٹ میچ کھیلے وہ ایک آرمی آفیسر تھے جنھوں نے 26 سال کا عرصہ ملک کے اس عسکری ادارے میں گزارا اور 1978ء میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے۔
وہ 1930ء میں لاہور میں پیدا ہوئے تھے اور انھوں نے اپنی تعلیم اسلامیہ کالج لاہور سے حاصل کی۔ آرمی کی سروس کے دوران 1971ء میں وہ بنگلہ دیش میں جنگی قیدی بنا لیے گئے تھے جہاں ان کے 18 ماہ اسیری میں گذرے۔ ان کی کرکٹ کے موضوع پر 1996ء اور 2003ء میں انگریزی زبان میں شائع ہونے والی دو کتابوں نے بہت شہرت حاصل کی۔ انھوں نے پاکستان کے علاوہ بہاولپور،ناردرن انڈیا،پنجاب یونیورسٹی' راولپنڈی اور پاکستان سروسز کی طرف سے بھی فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی۔ وہ 1948ء میں لاہور کے مقام پر ویسٹ انڈیز کے خلاف سب سے پہلے فرسٹ کلاس کرکٹ میچ میں شرکت کرنے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں۔ وہ 1946-47ء میں اول درجہ کرکٹ میں وارد ہوئے۔ اس وقت ان کی عمر صرف 16 سال تھی جب انھوں نے آزادی سے قبل ناردرن انڈیا کی طرف سے کھیلنے کی ابتدا کی۔ انھوں نے 101 فرسٹ کلاس میچ کھیلے جس میں 6 سنچریوں کی مدد سے 3490 رنز 25.28 کی اوسط سے بنائے۔ 147 ان کا سب سے زیادہ سکور تھا۔انھوں نے 69 کیچز بھی لیے۔ انھوں نے 319 وکٹ 21.98 کی اوسط سے حاصل کیے اور 53 رنز کے عوض 8 وکٹوں کا حصول ان کی فرسٹ کلاس میں ایک اننگ کی بہترین کارکردگی تھی۔ اول درجہ کرکٹ میں شجاع اس وقت نظروں میں آئے جب انھوں نے ایم سی سی کی کرکٹ ٹیم کے دورہ پاکستان میں کمبائنڈ یونیورسٹی کی طرف سے 112 رنز بنائے۔ صرف 2 روزہ میچ میں اس شاندار کارکردگی کے باوجود انھیں 1951-52ء میں بھارت کا دورہ کرنے والی ٹیم کا حصہ نہ بنایا گیا۔اسی طرح انھوں نے 1954ء کے دورہ انگلستان میں فرسٹ کلاس میچز میں عمدہ کارکردگی دکھائی جہاں انھوں نے لیسٹرشائر کے خلاف 5/37' ڈیون شائر کے خلاف 3/36 اور 4/42' آکسفور یونیورسٹی کے خلاف 4/45' بل مورگن کے خلاف 3/27 اور 3/46' لنکا شائر کے خلاف 5/26' سمر سیٹ کے خلاف 3/68' واربک شائر کے خلاف 4/31' مڈل سسیکس کے خلاف 4/66 اور 3/85' آل انگلینڈ الیون کے خلاف 2/47 اور انگلستان کے خلاف مانچسٹر کے تیسرے ٹیسٹ میں 3/127 کی عمدہ پرفارمنس دی اور اسی طرح اوول کے ٹیسٹ میں انھوں نے ذو الفقار احمد اور محمود حسین کے ساتھ مل کر 56 رنز جوڑے جس سے ٹیم کا سکور 133 تک پہنچ گیا۔ شجاع الدین بٹ 2 گھنٹوں سے بھی زائد کریز پر رہے اور 16 رنز کے ساتھ ناٹ آئوٹ پویلین لوٹے۔ دوسری اننگ میں شجاع نے حنیف محمد کے ساتھ اننگز کا آغاز کیا۔ اس پورے دورے میں اگر وہ فضل محمود اور محمود حسین کے بعد وکٹوں کے اعتبار سے تیسرے نمبر پر تھے۔ انھوں نے 68 وکٹیں حاصل کی تھیں۔ اسی طرح عبد الحفیظ کاردار اور مقصود احمد کے بعد وہ سب سے زیادہ کیچز لینے والے کھلاڑی تھے۔ اس کے بعد انھوں نے 1956ء میں پاکستان کے دورے پر آئی ایم سی سی کی ٹیم کے خلاف پاکستان سروسز کی طرف سے سرگودھا کے مقام پر 147 رنز کی باری کھیلنے کے علاوہ 71 رنز کے عوض 6 وکٹیں بھی حاصل کیں۔ اسی طرح پہلے غیر سرکاری ٹیسٹ میں لاہور کے مقام پر 5 وکٹوں کے حصول کے لیے انھوں نے صرف 33 رنز دیے۔
شجاع الدین بٹ ایک جارحانہ بلے باز کے طور پر پہچان رکھنے والے بائیں ہاتھ کے سلو بائولر تھے۔ انھوں نے 1954ء سے 1962ء تک پاکستان کی طرف سے 19 ٹیسٹ کھیلے۔ انھوں نے ٹیسٹ کرکٹ کا آغاز 1954ء کے دورہ پاکستان میں لارڈز کے میدان پر کیا تھا۔ انھوں نے اسی سیریز میں اوول کا وہ ٹیسٹ بھی کھیلا جو پاکستان کی شاندار فتح پر منتج ہوا تھا لیکن ٹیسٹ میچوں میں ان کی تسلسل کے ساتھ کارکردگی دیکھنے کو نہ ملی تاہم ان کی کارکردگی فرسٹ کلاسز میچ میں نمایاں تھی لیکن اس کے باوجود انھیں 1952-53ء میں بھارت کے خلاف اولین سیریز میں نظر انداز کر دیا گیا تھا حالانکہ شجاع الدین بٹ اس وقت تک اول درجہ میچوں میں 28.42 کی اوسط سے 68 وکٹ لے چکے تھے۔ ان کا اپنی سرزمین پر بہترین سیزن 1961-62ء تھا جہاں ایک بار پھر انھوں نے 68 وکٹ لیے۔اس مرتبہ ان کی فی وکٹ اوسط قدرے بہتر 18.52 تھی لیکن پھر بھی وہ سلیکٹر کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہے لیکن 1955-56ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف اور 1958-59ء میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ڈھاکہ اور کراچی میں انھیں قومی ٹیم کے ساتھ موقع ملا مگر وہ حقیقی سیزن جس میں ان کی صلاحیتیں کھل کر سامنے آئیں در حقیقت وہ 1959-60ء تھا جب انھوں نے لاہور میں آسٹریلیا کے خلاف 318 منٹ میں 45 قیمتی رنز بنائے۔اس سکور کی اہمیت اس سے بھی زیادہ تھی کہ پہلی اننگز میں پاکستان کی ٹیم مشکلات سے دوچار تھی اور اس وقت کے کپتان سعید احمد نے انھیں اعتماد دیا اور ہدایت کی کہ ہر حال میں وکٹ پر قیام کو ممکن بنائیں گے۔ انھوں نے سعید احمد کے ساتھ مل کر تیسری وکٹ کے لیے 169 رنز جوڑے[2] ان کی احتیاط کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے اپنا پہلا رنز لینے کے لیے 65 منٹ انتظار کیا۔ ان کا یہ ریکارڈ آج بھی قائم ہے کہ انھوں نے اپنا کھاتہ کھولنے کے لیے اتنا انتظار کیا۔ یہ ان کے انہماک کی بدولت تھا کہ پاکستان اس میچ میں یقینی شکست سے بچ گیا۔ 1955-56ء میں نیوزی لینڈ کے دورے میں ان کی شاندار بالوئنگ سامنے آئی جب انھوں نے 33 اوورز میں سے 19 میڈن اوور کے ساتھ 35 رنز دے کر 4 وکٹوں کا حصول ممکن بنایا اور 47 رنز بھی بنا لیے۔ اس اننگز کی خاص بات یہ تھی کہ اسی بدولت کراچی میں پاکستان کی فتح ممکن ہوئی۔ ڈھاکہ اور لاہور کے بقیہ ٹیسٹوں میں بھی ان کو بائولنگ کا موقع ملا۔ اس کے بعد وہ 1956ء میں آسٹریلیا کے خلاف کراچی ٹیسٹ اور 1957-58ء میں ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز کا حصہ رہے۔
شجاع الدین بٹ نے 19 ٹیسٹ میچوں کی 32 اننگز میں 6 مرتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر 395 رنز سکور کیے[3] 15.19 کی اوسط سے بننے والے اس مجموعی سکور میں 47 ان کا زیادہ سے زیادہ سکور تھا جبکہ شجاع الدین نے 101 فرسٹ کلاس میچوں کی 160 اننگز میں 22 مرتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر 3490 رنز سکور کیے۔ 147 رنز کسی ایک اننگ میں سب سے زیادہ سکور تھے۔ 25.28 کی اوسط سے انھوں نے 6 سنچریوں اور 14 نصف سنچریوں کی مدد سے یہ مجموعہ ترتیب دیا تھا۔ ٹیسٹ میں 8 اور اول درجہ میں 69 کیچز ان کی فیلڈ میں چابکدستی کا ثبوت تھے۔ شجاع الدین بٹ نے بولنگ کے شعبے میں 20 ٹیسٹ وکٹیں حاصل کیں جس کے لیے انھیں 801 رنز دینے پڑے۔ 40.05 کی قدرے مہنگی اوسط کے ساتھ انھوں نے 3/18 کسی ایک اننگ میں اور 4/35 کسی ایک میچ میں بہترین کارکردگی کے ساتھ اختتام کیا جبکہ فرسٹ کلاس میچز میں 21.98 کی اوسط کے ساتھ 319 وکٹ ان کے حصے میں آئیں۔ 53/8 ان کی کسی ایک اننگ میں بہترین کارکردگی تھی۔
کرکٹ سے ریٹائر ہونے کے بعد انھیں 1976-77ء میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے دورہ آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے لیے منیجر مقرر کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ وہ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز سے بھی وابستہ رہے اور پھر پاکستان کرکٹ بورڈ میں انچارج لائبریری/ آرکائیو بھی رہے پھر وہ انگلستان چلے گئے اور وہیں پر 7 فروری 2006ء کو 75 سال 303 دن کی عمر میں اس دنیا کو خیر باد کہہ گئے۔
پیش نظر صفحہ سوانح پاکستانی کرکٹ سے متعلق سے متعلق موضوع پر ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں مزید اضافہ کرکے ویکیپیڈیا کی مدد کرسکتے ہیں۔ |
ویکی ذخائر پر شجاع الدین بٹ سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |